صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
56. باب كَرَاهَةِ الطُّرُوقِ وَهُوَ الدُّخُولُ لَيْلاً لِمَنْ وَرَدَ مِنْ سَفَرٍ:
باب: مسافر اپنے گھر میں رات کو نہ لوٹے۔
حدیث نمبر: 4964
حَدَّثَنِي إِسْمَاعِيلُ بْنُ سَالِمٍ ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، أَخْبَرَنَا سَيَّارٌ . ح وحَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ سَيَّارٍ ، عَنْ الشَّعْبِيِّ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَزَاةٍ، فَلَمَّا قَدِمْنَا الْمَدِينَةَ ذَهَبْنَا لِنَدْخُلَ، فَقَالَ: " أَمْهِلُوا حَتَّى نَدْخُلَ لَيْلًا أَيْ عِشَاءً كَيْ تَمْتَشِطَ الشَّعِثَةُ وَتَسْتَحِدَّ الْمُغِيبَةُ ".
ہشیم نے سیار سے، انہوں نے (عامر) شعبی سے، انہوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم ایک غزوے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، جب ہم مدینہ پہنچے تو ہم گھروں کے اندر داخل ہونے کے لیے جانے لگے تو آپ نے فرمایا: "رک جاؤ، حتی کہ ہم (کچھ تاخیر سے) رات کے وقت، یعنی عشاء کے وقت جائین تاکہ بکھرے بالوں والی اپنے بال سنوار لے اور اور شوہر کی غیر موجودگی میں رہنے والی اپنی صفائی کرے۔"
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، ہم ایک غزوہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، تو جب ہم مدینہ پہنچے، ہم نے گھروں میں داخل ہونا چاہا، تو آپ نے فرمایا: ٹھہر جاؤ، تاکہ ہم رات کو (عشاء کے وقت) داخل ہوں، تاکہ پراگندہ بالوں والی بال درست کر لے اور جس عورت کا شوہر غائب تھا، وہ زیر ناف بال صاف کر لے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2712  
´بیوی کے پاس سفر سے رات میں واپس آنا مکروہ ہے۔`
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو سفر سے رات میں بیویوں کے پاس لوٹ کر آنے سے روکا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2712]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
رات میں سفر سے واپس آ کر اپنے گھر والوں کے پاس آنے کی ممانعت اس صورت میں ہے جب آمد کی پیشگی اطلاع نہ دی گئی ہو،
اور اگر گھر والے اس کی آمد سے پہلے ہی باخبر ہیں تو پھر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2712   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2776  
´رات میں سفر سے گھر واپس آنا کیسا ہے؟`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند فرماتے تھے کہ آدمی سفر سے رات میں اپنے گھر واپس آئے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2776]
فوائد ومسائل:
مقصد یہ ہے کہ انسان طویل غیر حاضری کے بعد بغیر پیشگی اطلاع کے بے وقت اچانک بالخصوص عشاء کے بعد گھر میں نہ آئے۔
اس میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
ممکن ہے گھر والے صاحب خانہ کی طرف سے مطمئین ہوکر کہیں باہر جانے کا پروگرام بنا لیں یا آنے والے کی بیوی اپنی اور گھر کی صفائی ستھرائی کی جانب سے غفلت کرلے یا کوئی ایسا مہمان بھی گھر میں آسکتا ہے۔
جس کا آنا گھر والے کو ناگوار ہو اس طرح دونوں میاں بیوی کے درمیان کئی طرح کی انہونی الجھنیں راہ پاسکتی ہیں۔
ہاں اگر اطلاع دے دی گئی ہو تو کسی بھی وقت آنا چاہیے۔
تو آسکتا ہے۔
اس کا اپنا گھر ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2776   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4964  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
اصل مقصد رات یا دن کو داخل ہونے سے روکنا نہیں ہے،
بلکہ اصل مقصد یہ ہے،
طویل سفر کے بعد جبکہ عورت کو خاوند کی آمد کا علم نہ ہو،
اچانک گھر نہیں آنا چاہیے،
کیونکہ عورت خاوند کے گھر میں نہ ہونے سے زیب و زینت کرنے سے کنارہ کش ہوتی ہے،
پراگندہ حالت میں کام کاج کے کپڑوں میں ملبوس ہوتی ہے،
اسی حالت میں دیکھ کر بعض دفعہ خاوند کے دل میں نفرت پیدا ہو سکتی ہے،
اس لیے اگر خاوند کی آمد کے بارے میں علم ہو،
یا سفر میں زیادہ وقت نہ لگا ہو تو پھر خاوند کسی وقت بھی آ سکتا ہے،
لیکن آج تو عورتیں دینی آداب کے برعکس خاوند کی غیر حاضری میں خوب بن ٹھن کر رہتی ہیں،
کسی دن ہار سنگار سے غافل نہیں ہوتیں،
اس لیے صرف بدنامی کا سبب ہی روکنے کا باعث ہو سکتا ہے،
کہ خواہ مخواہ بدظنی کا شکار ہو کر اچانک گھر نہیں آنا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4964