صحيح مسلم
كِتَاب الْإِمَارَةِ -- امور حکومت کا بیان
56. باب كَرَاهَةِ الطُّرُوقِ وَهُوَ الدُّخُولُ لَيْلاً لِمَنْ وَرَدَ مِنْ سَفَرٍ:
باب: مسافر اپنے گھر میں رات کو نہ لوٹے۔
حدیث نمبر: 4969
وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ مُحَارِبٍ ، عَنْ جَابِرٍ ، قَال: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَطْرُقَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ لَيْلًا يَتَخَوَّنُهُمْ أَوْ يَلْتَمِسُ عَثَرَاتِهِمْ ".
وکیع نے سفیان سے، انہوں نے محارب سے، انہوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات سے منع فرمایا ہے کہ انسان رات کو (اچانک) گھر والوں کے پاس جا پہنچے اور ان کو خیانت (جس طرح خاوند نے کہا ہوا ہے، اس طرح نہ رہنے) کا مرتکب سمجھے اور ان کی کمزوریاں ڈھونڈے۔
حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کو اس غرض سے گھر آنے سے منع فرمایا، کہ وہ ان کی خیانت پکڑنا چاہے یا ان کی لغزشوں کا تجسس کرے۔
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2712  
´بیوی کے پاس سفر سے رات میں واپس آنا مکروہ ہے۔`
جابر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو سفر سے رات میں بیویوں کے پاس لوٹ کر آنے سے روکا ہے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الاستئذان والآداب/حدیث: 2712]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
رات میں سفر سے واپس آ کر اپنے گھر والوں کے پاس آنے کی ممانعت اس صورت میں ہے جب آمد کی پیشگی اطلاع نہ دی گئی ہو،
اور اگر گھر والے اس کی آمد سے پہلے ہی باخبر ہیں تو پھر اس میں کوئی قباحت نہیں ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2712   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2776  
´رات میں سفر سے گھر واپس آنا کیسا ہے؟`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ناپسند فرماتے تھے کہ آدمی سفر سے رات میں اپنے گھر واپس آئے۔ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2776]
فوائد ومسائل:
مقصد یہ ہے کہ انسان طویل غیر حاضری کے بعد بغیر پیشگی اطلاع کے بے وقت اچانک بالخصوص عشاء کے بعد گھر میں نہ آئے۔
اس میں کئی حکمتیں پوشیدہ ہیں۔
ممکن ہے گھر والے صاحب خانہ کی طرف سے مطمئین ہوکر کہیں باہر جانے کا پروگرام بنا لیں یا آنے والے کی بیوی اپنی اور گھر کی صفائی ستھرائی کی جانب سے غفلت کرلے یا کوئی ایسا مہمان بھی گھر میں آسکتا ہے۔
جس کا آنا گھر والے کو ناگوار ہو اس طرح دونوں میاں بیوی کے درمیان کئی طرح کی انہونی الجھنیں راہ پاسکتی ہیں۔
ہاں اگر اطلاع دے دی گئی ہو تو کسی بھی وقت آنا چاہیے۔
تو آسکتا ہے۔
اس کا اپنا گھر ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2776   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 4969  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
يتخونهم:
ان کوخائن سمجھ کراس کی ٹوہ لگائے۔
(2)
عثرات:
عثرة کی جمع ہے،
لغزش،
غلطی،
مقصد یہ ہے کہ بدظنی کرتے ہوئے،
جاسوسی کے لیے اچانک رات کو نہ آئے۔
اصل مقصد یہ خواہ مخواہ گھر والوں کے بارے میں بدظنی اور بداعتمادی کاشکار نہیں ہونا چاہیے،
اس بدظنی اور بدگمانی سے بچانے کے لیے رات کو اچانک آنے سے منع کیا ہے۔
لیکن آج تو موبائل کی وجہ سے ہر وقت رابطہ رہتا ہے اس سے انسان کسی وقت بھی گھر آسکتا ہے گھر والے اس کے انتظار میں ہوں گے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 4969