صحيح البخاري
كِتَاب التَّهَجُّد -- کتاب: تہجد کا بیان
31. بَابُ صَلاَةِ الضُّحَى فِي السَّفَرِ:
باب: سفر میں چاشت کی نماز پڑھنا۔
حدیث نمبر: 1176
حَدَّثَنَا آدَمُ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ , قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ أَبِي لَيْلَى , يَقُولُ:" مَا حَدَّثَنَا أَحَدٌ، أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي الضُّحَى غَيْرُ أُمِّ هَانِئٍ، فَإِنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ بَيْتَهَا يَوْمَ فَتْحِ مَكَّةَ فَاغْتَسَلَ وَصَلَّى ثَمَانِيَ رَكَعَاتٍ، فَلَمْ أَرَ صَلَاةً قَطُّ أَخَفَّ مِنْهَا غَيْرَ أَنَّهُ يُتِمُّ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ".
ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عمرو بن مرہ نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ میں نے عبدالرحمٰن بن ابی لیلی سے سنا، وہ کہتے تھے کہ مجھ سے ام ہانی رضی اللہ عنہا کے سوا کسی (صحابی) نے یہ نہیں بیان کیا کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ صرف ام ہانی رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ فتح مکہ کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے گھر تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے غسل کیا اور پھر آٹھ رکعت (چاشت کی) نماز پڑھی۔ تو میں نے ایسی ہلکی پھلکی نماز کبھی نہیں دیکھی۔ البتہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع اور سجدہ پوری طرح ادا کرتے تھے۔
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 415  
´آٹا لگے ہوئے برتن میں پانی بھر کر غسل کرنے کا بیان۔`
ام ہانی رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ وہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں، آپ ایک ٹب سے غسل کر رہے تھے جس میں گندھا ہوا آٹا لگا تھا، اور آپ کو (فاطمہ رضی اللہ عنہا ۱؎) کپڑا سے پردہ کیے ہوئے تھیں، تو جب آپ غسل کر چکے، تو آپ نے چاشت کی نماز پڑھی، اور میں نہیں جان سکی کہ آپ نے کتنی رکعت پڑھی۔ [سنن نسائي/كتاب الغسل والتيمم/حدیث: 415]
415۔ اردو حاشیہ: مذکورہ روایت کے الفاظ: «فَمَا أَدْرِي كَمْ صَلَّى» میں نہیں جانتی کہ آپ نے کتنی رکعات پڑھی ہیں۔ شاذ ہیں، اگرچہ محقق کتاب نے ساری روایت ہی کو حسن قرار دیا ہے۔ تاہم درست اور صحیح بات یہ ہے کہ صحیحین کی روایت کے مطابق خود ام ہانی نے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ آپ نے آٹھ رکعت نماز ادا فرمائی تھی۔ شیخ البانی رحمہ اللہ نے بھی الفاظ کو سنن نسائی میں شاذ قرار دیا ہے۔ مزید دیکھیے، حدیث226 اور اس فوائدومسائل۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 415   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 226  
´غسل کرتے وقت پردہ کرنے کا بیان۔`
ام ہانی رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ وہ فتح مکہ کے دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں غسل کرتے ہوئے ملے، فاطمہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک کپڑے سے آڑ کیے ہوئے تھیں، (ام ہانی کہتی ہیں) میں نے سلام کیا ۱؎، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: یہ کون ہے؟ میں نے عرض کیا: ام ہانی ہوں، تو جب آپ غسل سے فارغ ہوئے، تو کھڑے ہوئے اور ایک ہی کپڑے میں جسے آپ لپیٹے ہوئے تھے آٹھ رکعتیں پڑھیں۔ [سنن نسائي/ذكر ما يوجب الغسل وما لا يوجبه/حدیث: 226]
226۔ اردو حاشیہ:
➊ حضرت ام ہانی رضی اللہ عنہا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ہمشیرہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چچا زاد بہن تھیں۔
➋ یہ آٹھ رکعت نماز صلاۃ ضحیٰ (چاشت کی نماز) تھی۔
➌ ایک کپڑے میں بھی نماز پڑھی جا سکتی ہے، بشرطیکہ اس سے کندھوں سے لے کر گھٹنوں کے نیچے تک جسم ڈھانپ لیا جائے، باقی جسم ننگا ہو تو کوئی حرج نہیں۔
➍ غسل کرنے والا حسب ضرورت کلام کر سکتا ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 226   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث465  
´وضو اور غسل کے بعد رومال استعمال کرنے کا بیان۔`
ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ فتح مکہ کے سال نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نہانے کا ارادہ کیا، فاطمہ رضی اللہ عنہا نے آپ پر پردہ کئے رکھا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہا کر اپنا کپڑا لیا، اور اسے اپنے جسم پر لپیٹ لیا ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 465]
اردو حاشہ:
(1)
پانی کی طرف جانے کا مفہوم یہ ہے کہ گھر میں ایک طرف برتن میں نہانے کے لیے پانی رکھا گیا اور آپﷺ نہانے کے لیےتشریف لے گئے۔

(2)
نہاتے وقت جسم پر چھوٹا کپڑا موجود ہو تب بھی مزید پردہ کرنا یا غسل خانے میں کپڑا پہن کر نہانا افضل ہے تاہم اگر پردے میں نہاتے وقت جسم پر کوئی کپڑا نہ ہو تب بھی جائز ہے۔

(3)
نہانے کے بعد جب کپڑا جسم سے لپیٹا جائے تو وہ جسم پر موجود قطرات کو جذب کرلیتا ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ کپڑے یا تولیے سے جسم خشک کرنا جائز ہے۔
اس میں کوئی حرج نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 465   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1290  
´نماز الضحیٰ (چاشت کی نماز) کا بیان۔`
ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز چاشت کی نماز آٹھ رکعت پڑھی، آپ ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ احمد بن صالح کی روایت میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز چاشت کی نماز پڑھی، پھر انہوں نے اسی کے مثل ذکر کیا۔ ابن سرح کی روایت میں ہے کہ ام ہانی کہتی ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے، اس میں انہوں نے چاشت کی نماز کا ذکر نہیں کیا ہے، باقی روایت ابن صالح کی روایت کے ہم معنی ہے۔ [سنن ابي داود/كتاب التطوع /حدیث: 1290]
1290. اردو حاشیہ:
شیخ البانی رحمہ اللہ نے اس کی تضعیف کی ہے، مطلب یہ ہے کہ روایت تو صحیح ہے کیونکہ بخاری و مسلم میں یہ روایت موجود ہے، لیکن ان میں ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔ کے الفاظ نہیں ہیں۔ یہ الفاظ منکر ہیں اور اس کی وجہ سے روایت ضعیف ہے، ورنہ اصل واقعہ صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1290   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1176  
1176. حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت ام ہانی ؓ کے علاوہ ہمیں کسی (صحابی) نے نہیں بتایا کہ اس نے نبی ﷺ کو نماز اشراق پڑھتے دیکھا ہے۔ حضرت ام ہانی ؓ فرماتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن نبی ﷺ میرے گھر تشریف لائے، غسل فرمایا، پھر آٹھ رکعتیں پڑھیں۔ میں نے اس سے زیادہ ہلکی نماز نہیں دیکھی تھی، البتہ آپ رکوع و سجود مکمل کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1176]
حدیث حاشیہ:
حدیث ام ہانی میں آنحضرت ﷺ کی جس نماز کا ذکر ہے۔
شارحین نے اس کے بارے میں اختلاف کیا ہے، بعض نے اسے شکرانہ کی نماز قرار دیا ہے۔
مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ ضحی کی نماز تھی، ابو داؤد میں وضاحت موجود ہے کہ صلی سبحة الضحی۔
یعنی آپ ﷺ نے ضحی کے نفل نمازادا فرمائے اور مسلم نے کتاب الطهارة میں نقل فرمایا:
ثم صلی ثمانِ رکعات سبحةَ الضُحی۔
یعنی پھر آنحضرت ﷺ نے ضحی کی آٹھ رکعت نفل ادا فرمائی اور تمہید ابن عبد البر میں ہے کہ قالت قدِمَ علیه السلام مکةَ فصلی ثمان رکعات فقلت ما ھذہ الصلوة قال ھذہ صلوةُ الضحی۔
حضرت ام ہانی ؓ کہتی ہیں کہ حضور ﷺ مکہ شریف تشریف لائے اور آپ نے آٹھ رکعات ادا کیں۔
میں نے پوچھا کہ یہ کیسی نماز ہے؟آپ ﷺ نے فرمایا کہ یہ ضحی کی نمازہے۔
امام نووی ؒ نے اس حدیث سے دلیل پکڑی ہے کہ صلاۃ الضحی کا مسنون طریقہ آٹھ رکعات ادا کرنا ہے۔
یوں روایات میں کم وبیش بھی آئی ہیں۔
بعض روایات میں کم سے کم تعداد دو رکعت بھی مذکور ہے۔
بہر حال بہتر یہ ہے کہ صلوۃ الضحی پر مداومت کی جائے کیونکہ طبرانی اوسط میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی ایک حدیث میں مذکور ہے کہ جنت میں ایک دروازے کا نام ہی باب الضحی ہے جو لوگ نماز ضحی پر مداومت کرتے ہیں، ان کو اس دروازے سے جنت میں داخل کیا جائے گا۔
عقبہ بن عامر سے مروی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ضحی کی نماز میں سورۃ ﴿والشمسِ وضُحٰھا﴾ اور ﴿والضحی﴾ پڑھا کریں۔
اس نماز کا وقت سورج کے بلند ہونے سے زوال تک ہے۔
(قسطلاني)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1176   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1176  
1176. حضرت عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: حضرت ام ہانی ؓ کے علاوہ ہمیں کسی (صحابی) نے نہیں بتایا کہ اس نے نبی ﷺ کو نماز اشراق پڑھتے دیکھا ہے۔ حضرت ام ہانی ؓ فرماتی ہیں کہ فتح مکہ کے دن نبی ﷺ میرے گھر تشریف لائے، غسل فرمایا، پھر آٹھ رکعتیں پڑھیں۔ میں نے اس سے زیادہ ہلکی نماز نہیں دیکھی تھی، البتہ آپ رکوع و سجود مکمل کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1176]
حدیث حاشیہ:
(1)
عبداللہ بن حارث سے بھی اس قسم کی روایت مروی ہے کہ میں متعدد صحابۂ کرام ؓ سے ملا اور رسول اللہ ﷺ کی نماز چاشت کے متعلق دریافت کرتا رہا۔
مجھے ام ہانی ؓ کے علاوہ کسی نے بھی اس کے متعلق اطلاع نہیں دی۔
انہوں نے بتایا کہ فتح مکہ کے دن رسول اللہ ﷺ خوب دن چڑھے میرے گھر تشریف لائے، غسل فرمایا، پھر آپ نے آٹھ رکعات ادا فرمائیں۔
میں نے آپ کو اس سے پہلے اور اس کے بعد یہ نماز پڑھتے نہیں دیکھا۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1668(338)
ایک روایت میں ہے کہ آپ نے نماز چاشت کی آٹھ رکعات ادا فرمائیں اور ہر دو رکعت پر سلام پھیرتے تھے۔
(صحیح ابن خزیمة: 234/2) (2)
اس میں شک نہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے قول و عمل سے نماز اشراق کی اہمیت و فضیلت ثابت ہے، چنانچہ آپ نے فرمایا:
ہر انسان کو اپنے جسم کے ہر جوڑ کے بدلے صدقہ و خیرات کرنا چاہیے۔
سبحان الله کہنا،الحمدلله کہنا، لا إله إلا الله کہنا اور الله أكبر کہنا بھی صدقہ ہے۔
نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا بھی صدقہ ہے۔
اگر اشراق کی دو رکعت پڑھ لی جائیں تو ان سب کاموں سے کفایت کر جاتی ہیں۔
(صحیح مسلم، صلاة المسافرین، حدیث: 1871(720)
حافظ ابن حجر ؒ نے ابن منیر کے حوالہ سے لکھا ہے کہ دوران سفر میں رسول اللہ ﷺ اس نماز کا اہتمام نہیں کرتے تھے، ہاں! اگر دوران سفر میں گھر جیسی سہولت میسر ہو تو نماز اشراق کا اہتمام کیا جا سکتا ہے، جیسا کہ حضرت ام ہانی ؓ کے گھر میں سہولیات میسر تھیں تو آپ نے نماز اشراق ادا کی جبکہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا تھا۔
(فتح الباري: 68/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1176