صحيح مسلم
كِتَاب الْأَضَاحِيِّ -- قربانی کے احکام و مسائل
5. باب بَيَانِ مَا كَانَ مِنَ النَّهْيِ عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الأَضَاحِيِّ بَعْدَ ثَلاَثٍ فِي أَوَّلِ الإِسْلاَمِ وَبَيَانِ نَسْخِهِ وَإِبَاحَتِهِ إِلَى مَتَى شَاءَ:
باب: تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے ممانعت اور اس کے منسوخ ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 5110
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا مَعْنُ بْنُ عِيسَى ، حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي الزَّاهِرِيَّةِ ، عَنْ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ ثَوْبَانَ ، قَالَ: ذَبَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ضَحِيَّتَهُ، ثُمَّ قَالَ يَا ثَوْبَانُ: " أَصْلِحْ لَحْمَ هَذِهِ "، فَلَمْ أَزَلْ أُطْعِمُهُ مِنْهَا حَتَّى قَدِمَ الْمَدِينَةَ.
معن بن عیسیٰ نے کہا: ہمیں معاویہ بن صالح نے ابوزاہریہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے جبیر بن نفیر سے، انھوں نے حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے قربانی کے جانوروں میں سے) قربانی کا ایک جانور ذبح کرکے فرمایا: "ثوبان! اس کے گوشت کو درست کرلو (ساتھ لے جانے کے لیے تیار کرلو۔) " پھرمیں وہ گوشت آپ کو کھلاتا رہا یہاں تک کہ آپ مدینہ تشریف لے آئے۔
حضرت ثوبان رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی ذبح کی، پھر فرمایا: اے ثوبان! اس گوشت کو، درست کرو (تاکہ ذخیرہ ہو سکے)۔ اور میں آپصلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ پہنچنے تک اس سے کھلاتا رہا۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2814  
´جانوروں کو بغیر کھانا پانی دئیے باندھ رکھنے کی ممانعت اور قربانی کے جانور کے ساتھ نرمی اور شفقت کا بیان۔`
ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (سفر میں) قربانی کی اور کہا: ثوبان! اس بکری کا گوشت ہمارے لیے درست کرو (بناؤ)، ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: تو میں برابر وہی گوشت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کھلاتا رہا یہاں تک کہ ہم مدینہ آ گئے۔ [سنن ابي داود/كتاب الضحايا /حدیث: 2814]
فوائد ومسائل:

یہ حکم عام ہے کہ کافر یا مجرم کو بھی اذیت دے کر قتل کرنا ناجائز ہے۔
البتہ کچھ صورتیں مخصوص ہیں۔
مثلا سولی چڑھانا۔
قصاص لینا یا شادی شدہ زانی کو پتھر مار مار کر قتل کرنا۔
لیکن بعد از قتل نعش کا مثلہ کرنا۔
(اس کے اعضاء کاٹنا) جائز نہیں۔


قابل قتل جانوروں کو قتل کرتے ہوئے تاک کرنشانہ مارنا چاہیے۔
تھوڑ ی تھوڑی چوٹ لگا کر انکے تڑپنے پھڑکنے سے لطف اندو ز ہونا حرام ہے۔
اسی طرح ذبیحہ جانوروں کے لئے چھری کو خوب تیز کیا جائے۔
اور مطلوبہ مقام پرچھری رکھی جائے۔
اور جانور کو اچھی طرح سے پکڑا جائے۔
یا باندھا جائے تاکہ ذبح کرنا آسان رہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2814