صحيح البخاري
كتاب فضل الصلاة -- کتاب: مکہ و مدینہ میں نماز کی فضیلت
3. بَابُ مَنْ أَتَى مَسْجِدَ قُبَاءٍ كُلَّ سَبْتٍ:
باب: جو شخص مسجد قباء میں ہر ہفتہ حاضر ہوا۔
حدیث نمبر: 1193
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْتِي مَسْجِدَ قُبَاءٍ كُلَّ سَبْتٍ مَاشِيًا وَرَاكِبًا"، وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَفْعَلُهُ.
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبدالعزیز بن مسلم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے عبداللہ بن دینار نے بیان کیا اور ان سے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتہ کو مسجد قباء آتے پیدل بھی (بعض دفعہ) اور سواری پر بھی اور عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بھی ایسا ہی کرتے۔
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 191  
´مسجد قبا میں نماز پڑھنے کا ثواب`
«. . . 279- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يأتي قباء ماشيا وراكبا. . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چل کر اور سوار ہو کر (دونوں حالتوں میں) قبا کو جایا کرتے تھے . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 191]

تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 518/1399، من حديث مالك به، ورواه البخاري 7326، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقہ:
➊ پیدل یا سوار ہو کر مسجد قبا جانا اور دو رکعتیں پڑھنا سنت ہے۔
➋ ایک حدیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر ہفتے کے دن قبا جاتے تھے اور ابن عمر (رضی اللہ عنہما) بھی اسی طرح کرتے تھے۔ [صحيح مسلم: 521/1399، دارالسلام: 3396]
➌ گھر سے وضو کر کے / مسجد قبا میں نماز پڑھنا عمرے کے (ثواب کے) برابر ہے۔ دیکھئے [سنن الترمذي 324 وسنده حسن وقال الترمذي: حسن غريب، وسنن ابن ماجه 1412]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 279   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 699  
´مسجد قباء اور اس میں نماز کی فضیلت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قباء (کبھی) سوار ہو کر اور (کبھی) پیدل جاتے تھے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المساجد/حدیث: 699]
699 ۔ اردو حاشیہ: آپ کے تشریف لے جانے کا مقصد اپنی ابتدائی مسجد کی عزت افزائی اور وہاں کے مسلمانوں سے ملاقات تھا کیونکہ یہ مسجد بہت دور تھی۔ ان لوگوں کا آپ کے پاس آنا مشکل تھا، بجائے اس کے کہ وہ سب آتے، آپ کا وہاں تشریف لے جانا آسان تھا۔ اس طرح وہاں کے لوگوں سے ملاقات بھی ہو جایا کرتی تھی۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 699   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2040  
´مدینہ کے حرم ہونے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد قباء پیدل اور سوار (دونوں طرح سے) آتے تھے ابن نمیر کی روایت میں اور دو رکعت پڑھتے تھے (کا اضافہ ہے)۔ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 2040]
فوائد ومسائل:
مدینہ منورہ کی مشروع ومسنون زیارات میں سے اہم ترین زیارت مسجد قباء کی ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ کا ارشاد گرامی تو یہ ہے۔
کہ یہاں نماز پڑھنے کا ثواب عمرے کا سا ثواب ہے۔
(سنن ابن ماجة، إقامة الصلاة، حدیث: 1411)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2040   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1193  
1193. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ ہر ہفتے کے دن مسجد قباء پیدل اور سوار ہو کر تشریف لے جاتے تھے۔ اور (راوی حدیث کہتے ہیں:) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بھی اس طرح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1193]
حدیث حاشیہ:
معلوم ہوا کہ مسجد قباء کی ان دو رکعتوں کا عظیم ثواب ہے۔
اللہ ہر مسلمان کو نصیب فرمائے۔
آمین۔
یہی وہ تاریخی مسجد ہے جس کا ذکر قرآن مجید میں ان لفظوں میں کیا گیا ہے ﴿لَمَسجِد اُسِّسَ عَلَی التَّقوٰی مِن اَوَّلِ یَومٍ اَحَقُّ اَن تَقُومَ فِیہِ فِیہِ رِجَال یُّحِبُّونَ اَن یَّتَطَھَّرُوا وَاللّٰہُ یُحِبُّ المُطَّھَّرِینَ﴾ (التوبة: 108)
یعنی یقیناً اس مسجد کی بنیاد اول دن سے تقوی پر رکھی گئی ہے۔
اس میں تیرا نماز کے لیے کھڑا ہونا انسب ہے۔
کیونکہ اس میں ایسے نیک دل لوگ ہیں جو پاکیزگی چاہتے ہیں۔
اور اللہ تعالی پاکی چاہنے والوں سے محبت کرتا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1193   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1193  
1193. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے، انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ ہر ہفتے کے دن مسجد قباء پیدل اور سوار ہو کر تشریف لے جاتے تھے۔ اور (راوی حدیث کہتے ہیں:) حضرت عبداللہ بن عمر ؓ بھی اس طرح کرتے تھے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1193]
حدیث حاشیہ:
امام بخاری ؒ نے اس عنوان اور پیش کردہ حدیث سے ثابت کیا ہے کہ مسجد قباء ان مساجد سے ہے جن کی طرف پیدل اور سوار ہو کر جانے میں چنداں حرج نہیں اور ایسا کرنا رخت سفر باندھنے سے متعلق حکم امتناعی میں داخل نہیں۔
جب مسجد نبوی کی تعمیر ہوئی تو اہل قباء اور باشندگان عوالی نماز جمعہ ادا کرنے کے لیے مسجد نبوی میں آئے تھے، اس بنا پر جمعہ کے دن مسجد قباء نمازیوں سے خالی رہتی تھی۔
اس کی تلافی کے لیے رسول اللہ ﷺ ہفتے کے دن مسجد قباء تشریف لے جاتے تھے۔
یہ بھی احتمال ہے کہ جمعے کے دن مشاغل کا ہجوم ہوتا تھا اور ہفتے کے روز فرصت کے لمحات میسر آنے پر آپ مسجد قباء کا رخ فرماتے تاکہ اہل قباء کی خبر گیری کی جائے اور جمعہ کے لیے مدینہ منورہ نہ جا سکنے والوں کا حال دریافت کیا جائے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اپنے طور پر بعض اعمال صالح کی ادائیگی کے لیے کسی دن کو متعین کیا جا سکتا ہے اور پھر اس پر مداومت کرنا بھی جائز ہے۔
(فتح الباري: 90/3)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1193