صحيح مسلم
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- مشروبات کا بیان
6. باب النَّهْيِ عَنْ الاِنْتِبَاذِ فِي الْمُزَفَّتِ وَالدُّبَّاءِ وَالْحَنْتَمِ وَالنَّقِيرِ وَبَيَانِ أَنَّهُ مَنْسُوخٌ وَأَنَّهُ الْيَوْمَ حَلاَلٌ مَا لَمْ يَصِرْ مُسْكِرًا:
باب: مرتبان اور تونبے اور سبز لاکھی برتن اور لکڑی کے برتن میں نبیذ بنانے کی ممانعت اور اس کی منسوخی کا بیان۔
حدیث نمبر: 5181
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ يَحْيَى الْبَهْرَانِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي عُمَرَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: " نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الدُّبَّاءِ وَالنَّقِيرِ وَالْمُزَفَّتِ ".
‏‏‏‏ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، منع کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تونبے اور چوبین اور لاکھی برتن سے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3696  
´شراب میں استعمال ہونے والے برتنوں کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں وفد عبدالقیس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم کس برتن میں پیئیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دباء، مزفت اور نقیر میں مت پیو، اور تم نبیذ مشکیزوں میں بنایا کرو انہوں نے کہا: اللہ کے رسول اگر مشکیزے میں تیزی آ جائے تو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس میں پانی ڈال دیا کرو وفد کے لوگوں نے کہا: اللہ کے رسول! (اگر پھر بھی تیزی نہ جائے تو) آپ نے ان سے تیسری یا چوتھی مرتبہ فرمایا: اسے بہا دو ۱؎ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بیشک اللہ تعالیٰ نے مجھ پر شراب، جوا، اور ڈھولک ک۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابي داود/كتاب الأشربة /حدیث: 3696]
فوائد ومسائل:

مشکیزےمیں ڈال ہوئے رس میں یہ شدت کسی خامرے کی آمیزش کے بغیر فطری طور پر پیدا ہوتی تھی۔


تیسری یا چوتھی بار پوچھنے سے پتہ چلا کہ وہ غیرمعمولی شدت ہے جو زیادہ وقت گزرنے کے ساتھ پیدا ہوتی ہے۔


جہاں شراب ایک مادی مشروب حرام ہے۔
کیونکہ عقل پر پردہ ڈال دیتی ہے، وہاں موسیقی ایک صوتی چیز ہے۔
جو بھلے چنگےآدمی کی عقل کو مائوف کر دیتی ہے۔
آلات موسیقی میں سے ایک ڈھول بھی ہے۔
جو حرام ہے۔
البتہ دف حلال ہے۔
جس پر ایک طرف سے چمڑا منڈا ہوتا ہے۔
اور دوسری طرف سے خالی ہوتا ہے۔
اسے ہاتھ سے بجایا جاتا ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3696