صحيح مسلم
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- مشروبات کا بیان
18. باب اسْتِحُبَابِ لَعْقِ الْأَصَابِعِ وَالْقَصْعَةِ ، وَأَكُلِ اللُّقْمَةِ السَّاقِطَةِ بَعْدَ مَسْحِ مَا يُصِيبُهَا مِنّ أَذًي ، وَّكَراهَةِ مَسْح الْيَدِ قَبْلَ لَعْقِهَا لِاحْتِمَالِ كَوْنِ بَرَكَةِ الطَّعَامِ فَي ذٰلِكَ الْبَاقِي وَ أَنَّ السُّنَّةُ الْأَكْلُ بِثَلَاثِ أَصَابِعَ
باب: کھانے (کے بعد) انگلیاں چاٹنا مستحبب ہے۔
حدیث نمبر: 5294
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرُونَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَمْرٍو ، عَنْ عَطَاءٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ طَعَامًا فَلَا يَمْسَحْ يَدَهُ حَتَّى يَلْعَقَهَا أَوْ يُلْعِقَهَا ".
عمرو نے عطاء سے، انھوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو اس وقت تک اپنا ہاتھ صاف نہ کرے جب تک اسے (اپنی انگلیوں کو) خود نہ چاٹ لے یا کسی اور کو نہ چٹوالے۔" (جسےمحبت ہو وہ چاٹ سکتا ہے۔)
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو تم میں سے کوئی ایک کھانا کھائے تو وہ اپنا ہاتھ (انگلیاں) چاٹے یا چٹائے بغیر اپنا ہاتھ صاف نہ کرے۔
  الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1241  
´کھانا ختم کرنے پر ہاتھ چاٹنے کی تاکید`
«وعن ابن عباس رضي الله عنهما قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: ‏‏‏‏إذا اكل احدكم طعاما فلا يمسح يده حتى يلعقها او يلعقها . متفق عليه»
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو وہ اپنا ہاتھ صاف نہ کرے یہاں تک کہ اسے خود چاٹ لے یا کسی کو چٹا دے۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1241]
تخریج:
[بخاري: 5456]،
[مسلم، الاشربة 5294]،
[بلوغ المرام: 1241]،
[تحفة الاشراف 88/5 و 945]

فوائد:
«لا يمسح يده» ہاتھ صاف کرنے سے مراد رومال یا تولئے کے ساتھ ہاتھ صاف کرنا ہے جیسا کہ
صحیح مسلم میں جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
«ولا يمسح يده بالمنديل حتى يلعق أصابعة»
اپنا ہاتھ تولئے کے ساتھ صاف نہ کرے یہاں تک کہ اپنی انگلیاں چاٹے۔ [الأشربة 134]
شروع ایام میں صحابہ کرام کے پاس تولئے نہیں ہوتے تھے آگ سے تیار شدہ کھانا بھی کم ہی ملتا تھا ان دنوں میں وہ انگلیاں چاٹنے کے بعد انہیں اپنی ہتھیلیوں، کلائیوں اور پاؤں کے ساتھ ہی صاف کر لیتے تھے۔ اور (دوبارہ) وضوء کئے بغیر نماز پڑھ لیتے تھے۔ [بخاري عن جابر 5457]
➋ ہاتھ چاٹنے کی وجہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی ہے۔
«فائه لا يدري فى أى طعامه تكون البركة» [مسلم عن جابر /الأشربة 35]
کہ کھانے والے کو معلوم نہیں کہ اس کے کھانے کے کون سے حصے میں برکت ہے۔
➌ اسی وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیالہ صاف کرنے کا حکم دیا اور یہ بھی فرمایا کہ اگر لقمہ گر پڑے تو اٹھا کر صاف کر کے کھا لے شیطان کے لئے نہ چھوڑے۔ [مسلم الاشربة: 137]
➍ برکت کا مطلب یہ ہے کہ وہ آسانی سے ہضم ہو جائے، پوری طرح جزو بدن بنے، کسی بیماری کا باعث نہ بنے، اللہ کی اطاعت میں مددگار بنے۔ «والله اعلم» [نووي]
برکت میں یہ بھی شامل ہے کہ اس سے بھوک کا احساس مٹ جائے کیونکہ بعض اوقات آدمی بہت سا کھانا کھاتا ہے اس کا پیٹ بھر جاتا ہے مگر بھوک نہیں مٹتی، حرص ختم نہیں ہوتی بلکہ کھاتا ہی چلا جاتا ہے اور آخر کار وہ کھانا اس کے لئے بوجھ اور بیماری کا باعث بن جاتا ہے اور بعض اوقات چند لقموں کے بعد ہی طبیعت سیر ہو جاتی ہے اور اسے بہترین فرحت کا احساس ہوتا ہے یہ اس برکت کا اثر ہے جو کھانے کے کسی لقمے کے ضمن میں اسے حاصل ہو گئی۔
➎ اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کھانے کے بعد ہاتھ دھونا ضروری نہیں صرف پونچھ لینا ہی کافی ہے مزید دیکھئے اس حدیث کا فائدہ نمبر 1۔
اپنا ہاتھ خود چاٹ لے یا کسی کو چٹا دے
یعنی جو اس کا ہاتھ چاٹنے سے کراہت محسوس نہ کرتا ہو مثلاً بیوی، بچہ یا بھائی وغیرہ اگر بکری یا گائے کو چٹا دے تب بھی درست ہے کہ برکت ضائع تو نہ ہوئی۔
   شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 38   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1241  
´ادب کا بیان`
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی کھانا کھائے تو اپنا ہاتھ چاٹنے یا چٹوانے سے پہلے (رومال وغیرہ سے) صاف نہ کرے۔ (بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1241»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الأطعمة، باب لعق الأصبابع ومصها قبل أن تمسح بالمنديل، حديث:5456، ومسلم، الأشربة، باب استحباب لعق الأصابع والقصعة...، حديث:2031.»
تشریح:
1. اس حدیث میں کھانا تناول کرنے کے آداب میں سے ایک ادب کی طرف توجہ دلائی گئی ہے کہ کھانا کھانے کے بعد ہاتھ رومال وغیرہ سے صاف کرنے سے پہلے انگلیوں کو اپنی زبان سے چاٹ کر یا دوسرے کسی سے چٹوا کر صاف کرنا چاہیے۔
عین ممکن ہے کہ ہاتھ پر لگے ہوئے کھانے ہی میں برکت ہو۔
2.کھانے کے دوران میں ہاتھوں کو رومال وغیرہ سے صاف کرتے رہنا یا انگلیوں کو چاٹنے سے پہلے صاف کرنا درست نہیں ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1241   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3847  
´رومال کا بیان۔`
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی شخص کھانا کھائے تو اپنا ہاتھ اس وقت تک رومال سے نہ پونچھے جب تک کہ اسے خود چاٹ نہ لے یا کسی کو چٹا نہ دے۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3847]
فوائد ومسائل:

یہ رسول اللہ ﷺ کی نفاست طبع کا تقاضا تھا کہ آپ ﷺ کھانا کھاتے ہوئے پانچوں انگلیوں کی بجائےتین یعنی ایک انگوٹھا اور دو انگلیوں کو استعمال فرماتے۔
(دیکھئے۔
حدیث 3848)
طعام کھانے کےلئے ہے اور جو انگلیوں پر لگا رہ جائے۔
اسے ضائع کرنے کا کوئی جواز نہیں۔
اس کا کھا لینا ہی مناسب ترین ہے۔
خاندان میں محبت اور اپنایئت کے جو رشتےہوتے ہیں۔
ان کی وجہ سے گھر کے افراد ایک دوسرے کا بچہ ہوا کھانا کھاتے ہیں۔
جو کہ انتہائی پیارا اور پسندیدہ عمل ہے۔
نیز اگر کھانا کھاتے ہوئے سالن اگر انگلیوں کو لگ جائے تو وہ اپنے بچوں کو یا اپنی بیوی کو یا دیگرافراد کو چٹوا دے تو یہ عمل جائز اور مباح ہے۔


انگلیاں چاٹ کر یا چٹوا کر رومال سے ہاتھ صاف کر لینا جائز ہے۔
اور شرعا یہ ضروری نہیں کہ ہاتھ فوری طور پر پانی ہی سے دھوئے، جایئں البتہ سونے سے پہلے دھولینا زیادہ بہتر ہے۔
دیکھئے۔
حدیث 3852)
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3847   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5294  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
انسان جب کھانا کھاتا ہے تو اس کا کچھ حصہ انسان کے ہاتھوں،
انگلیوں اور برتن کے ساتھ لگ جاتا ہے اور انسان اس سے بے خبر ہے کہ کھانے کے کس حصہ میں برکت ہے،
اس لیے آپ نے ہاتھ اور برتن کو چاٹنے اور اچھی طرح صاف کرنے کے بعد ان کو دھونے اور صاف کرنے کی ترغیب دی اور انسان کے منہ کے لعاب سے جس اچھے طریقہ سے انگلیاں صاف ہوتی ہیں،
ٹشو پیپر سے اس طرح صفائی حاصل نہیں ہوتی،
نیز اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کھانے کے کسی معمولی سے جز کو بھی ضائع نہیں کرنا چاہیے،
لیکن آج ہم غیروں کی تقلید میں اسلام کے اس سنہری اصول پر عمل کرنے کی بجائے ٹشو پیپروں کو بطور فیشن استعمال کرتے ہیں اور انگلیوں اور برتن کو صاف کرنا گنوار پن اور حرص و بخل تصور کرتے ہیں اور اپنی انگلی اپنے کسی عزیز بیوی بچوں کو بھی چٹا سکتا ہے،
کیونکہ وہ اس کو ناپسند نہیں کریں گے اور انہیں اس اصول کا بھی پتہ چل جائے گا اور بقول بعض یہاں او تنويع کے لیے یعنی یہ کر لو یا نہ کرو،
نہیں ہے بلکہ شک کے لیے ہے کہ آپ نے یہ لفظ کہا یا یہ لفظ بولا،
اس صورت میں معنی ہو گا،
اپنے منہ کو چٹوائے،
دونوں لفظوں کا مقصد ایک ہی ہو گا کہ وہ خود چاٹے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5294