صحيح مسلم
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- مشروبات کا بیان
19. باب مَا يَفْعَلُ الضَّيْفُ إِذَا تَبِعَهُ غَيْرُ مَنْ دَعَاهُ صَاحِبُ الطَّعَامِ وَاسْتِحْبَابُ إِذْنِ صَاحِبِ الطَّعَامِ لِلتَّابِعِ.
باب: اگر مہمان کے ساتھ کوئی طفیلی ہو جائے تو کیا کرے؟
حدیث نمبر: 5312
وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ،" أَنَّ جَارًا لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَارِسِيًّا كَانَ طَيِّبَ الْمَرَقِ، فَصَنَعَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ جَاءَ يَدْعُوهُ، فَقَالَ: وَهَذِهِ لِعَائِشَةَ، فَقَالَ: لَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، فَعَادَ يَدْعُوهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَذِهِ قَالَ: لَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، ثُمَّ عَادَ يَدْعُوهُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهَذِهِ قَالَ: نَعَمْ فِي الثَّالِثَةِ، فَقَامَا يَتَدَافَعَانِ حَتَّى أَتَيَا مَنْزِلَهُ".
ثابت نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فارس سے تعلق رکھنے والا پڑوسی شوربا اچھا بناتا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے شوربا تیار کیا، پھرآکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دی۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کرکے فرمایا: "ان کو بھی دعوت ہے؟"اس نے کہا: نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " نہیں (مجھے بھی تمہاری دعوت قبول نہیں) وہ دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بلانے آیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " ان کو بھی؟"اس نے کہا: نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تو نہیں۔"وہ پھر دعوت دینے کے لئے آیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان کو بھی؟" توتیسری بار اس نے کہا: ہاں۔پھر آپ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے چل پڑے یہاں تک کہ اس کے گھر آگئے۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک فارسی پڑوسی شوربا بہت اچھا تیار کرتا تھا تو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے شوربہ تیار کیا، پھر وہ آپ کو بلانے آیا، تو آپ نے فرمایا: اور یہ؟ یعنی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا، اس نے کہا: نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں بھی نہیں اس نے دوبارہ آپ کو دعوت دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور یہ؟ اس نے کہا: نہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں۔ اس نے آ کر آپ کو سہ بارہ دعوت دی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اور یہ؟ اس نے تیسری دفعہ کہا: جی ہاں، تو آپ دونوں ایک دوسرے کے پیچھے تیزی سے چل پڑے حتیٰ کہ اس کے گھر پہنچ گئے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5312  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
عام طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعوت میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ساتھ نہیں لے جاتے تھے،
بلکہ مردوں میں سے مخصوص ساتھیوں کے ساتھ جاتے تھے،
جیسا کہ اوپر کی حدیث میں انصاری نے آپ کو پانچ ساتھیوں کی صورت میں بلایا،
لیکن یہ پڑوسی تھا،
اس لیے اس کو حضور کے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی دعوت دینی چاہیے تھی،
کیونکہ حسن معاشرت کا یہی تقاضا تھا اور یہ بھی ممکن ہے،
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی کھانے کی ضرورت لاحق ہو اور گھر میں کھانا نہ ہو،
اس لیے آپ نے اکیلے کھانا مناسب خیال نہ کیا اور فارسی یہ سمجھتا ہو کہ کھانا ایک کے لیے ہے،
اگر ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی بلا لیا تو آپ سیر نہ ہو سکیں اور وہ چاہتا تھا کہ آپ سیر ہو کر کھا لیں،
جب آپ نے اصرار کیا اور پڑوسی کے ساتھ ایسی بے تکلفی ہو سکتی ہے تو وہ مان گیا،
کیونکہ وہ سمجھ گیا،
آپ کسی وجہ سے عائشہ رضی اللہ عنہا کو چھوڑنا گوارا نہیں کر رہے تو چلو دونوں کا گزارہ ہو جائے گا،
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس سے استدلال کیا ہے کہ دعوت میں جس شخص کو بلایا جا رہا ہے،
اس کے خصوصی احباب کو بھی بلانا چاہیے،
جیسا کہ انصاری نے کیا تھا،
لیکن فارسی نے اس کی خلاف ورزی کی،
اس لیے آپ نے دعوت قبول کرنے سے انکار فرمایا اور اکیلے یہ عمدہ شوربہ کھانا پسند نہ فرمایا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5312