صحيح مسلم
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- مشروبات کا بیان
33. باب فَضِيلَةِ الْمُوَاسَاةِ فِي الطَّعَامِ الْقَلِيلِ وَأَنَّ طَعَامَ الاِثْنَيْنِ يَكْفِي الثَّلاَثَةَ وَنَحْوِ ذَلِكَ:
باب: تھوڑے کھانے میں مہمانی کرنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 5368
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا رَوْحُ بْنُ عُبَادَةَ . ح وحَدَّثَنِي يَحْيَي بْنُ حَبِيبٍ ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي أَبُو الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " طَعَامُ الْوَاحِدِ يَكْفِي الِاثْنَيْنِ، وَطَعَامُ الِاثْنَيْنِ يَكْفِي الْأَرْبَعَةَ، وَطَعَامُ الْأَرْبَعَةِ يَكْفِي الثَّمَانِيَةَ ". وَفِي رِوَايَةِ إِسْحَاقَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَذْكُرْ سَمِعْتُ،
اسحاق بن ابراہیم اور یحییٰ بن حبیب نے روح بن عبادہ سے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں ابن جریج نےبتایا، کہا: مجھے ابو زبیر نے خبر دی کہ انھوں نے حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ آپ فرمارہے تھے: "ایک آدمی کا کھانا دو کےلیے کافی ہوجاتا ہے۔ اور دو کا کھانا چار کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔اور چار کا کھانا آٹھ کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔" اور اسحاق کی روایت میں ہے: (حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے کہا:) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "میں نے سنا" کے الفاظ ذکر نہیں کیے۔
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: ایک کا کھانا دو کے لیے کافی ہے اور دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہے اور چار کا کھانا آٹھ کے لیے کافی ہے۔ اسحاق کی روایت میں جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سماع کا ذکر نہیں ہے، اتنا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3254  
´ایک شخص کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے اور دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہوتا ہے، اور چار کا کھانا آٹھ افراد کے لیے کافی ہوتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3254]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر کھانا کم ہو تو مسلمان کوچاہیے کہ دوسرے ساتھیوں کا خیال رکھ کر کھائے۔

(2)
مل کر کھانا کھانے سے تھوڑا زیادہ افراد کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور کھانے میں برکت ہوتی ہے۔

(3)
باہمی ہمدردی اور خیر خواہی مسلمانوں کی امتیازی خوبی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3254