صحيح مسلم
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- مشروبات کا بیان
33. باب فَضِيلَةِ الْمُوَاسَاةِ فِي الطَّعَامِ الْقَلِيلِ وَأَنَّ طَعَامَ الاِثْنَيْنِ يَكْفِي الثَّلاَثَةَ وَنَحْوِ ذَلِكَ:
باب: تھوڑے کھانے میں مہمانی کرنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 5371
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَعُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي سُفْيَانَ ، عَنْ جَابِرٍ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " طَعَامُ الرَّجُلِ يَكْفِي رَجُلَيْنِ، وَطَعَامُ رَجُلَيْنِ يَكْفِي أَرْبَعَةً، وَطَعَامُ أَرْبَعَةٍ يَكْفِي ثَمَانِيَةً ".
جریر نے اعمش سے، انھوں نے ابو سفیان سے، انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔اور دو آدمیوں کا کھانا چا ر کے لئے کافی ہوجاتا ہے۔اور چار کا کھانا آٹھ کے لیے کافی ہوجاتا ہے۔"
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک آدمی کا کھانا دو آدمیوں کے لیے کفایت کرتا ہے اور دو آدمیوں کا کھانا چار کو کفایت کرتا ہے اور چار کا کھانا آٹھ کے لیے کافی ہو جاتا ہے۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3254  
´ایک شخص کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص کا کھانا دو کے لیے کافی ہوتا ہے اور دو کا کھانا چار کے لیے کافی ہوتا ہے، اور چار کا کھانا آٹھ افراد کے لیے کافی ہوتا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأطعمة/حدیث: 3254]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اگر کھانا کم ہو تو مسلمان کوچاہیے کہ دوسرے ساتھیوں کا خیال رکھ کر کھائے۔

(2)
مل کر کھانا کھانے سے تھوڑا زیادہ افراد کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور کھانے میں برکت ہوتی ہے۔

(3)
باہمی ہمدردی اور خیر خواہی مسلمانوں کی امتیازی خوبی ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3254