صحيح مسلم
كِتَاب الْأَشْرِبَةِ -- مشروبات کا بیان
35. باب لاَ يَعِيبُ الطَّعَامَ:
باب: کھانے کا عیب بیان نہیں کرنا چاہیئے۔
حدیث نمبر: 5383
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَاللَّفْظُ لِأَبِي كُرَيْبٍ، قَالُوا: أَخْبَرَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي يَحْيَي مَوْلَى آلِ جَعْدَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " مَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَابَ طَعَامًا قَطُّ، كَانَ إِذَا اشْتَهَاهُ أَكَلَهُ وَإِنْ لَمْ يَشْتَهِهِ سَكَتَ ".
آل جعدہ کے آزاد کردہ غلام ابو یحییٰ نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا کہ آپ نے کبھی کسی کھا نے میں عیب نکا لا ہو۔اگر آپ کو کوئی کھا نا مرغوب ہوتا (اچھالگتا) تو اسے کھا لیتے اور اچھا نہ لگتا تو خاموش رہتے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی کسی کھانے میں عیب نکالتے نہیں دیکھا، جب اس کی اشتہاء (خواہش) ہوتی تو اسے کھا لیتے اور اگر اس کی اشتہاء نہ ہوتی، خاموش رہتے۔
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 3763  
´کھانے کی برائی بیان کرنا مکروہ اور ناپسندیدہ بات ہے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کسی کھانے میں عیب نہیں لگایا، اگر رغبت ہوتی تو کھا لیتے ورنہ چھوڑ دیتے۔ [سنن ابي داود/كتاب الأطعمة /حدیث: 3763]
فوائد ومسائل:

انسان اللہ کی نعمت کھانے سے رہ بھی نہ سکے۔
اور پھر اس کی عیب جوئی بھی کرے۔
یہ بہت بُری خصلت ہے۔
اگر کھانا تیار کرنے والے کی تقصیر ہوتو اس کو مناسب انداز سے سمجھا دینا چاہیے۔


اس حدیث سے یہ استدلال بھی کیا جا سکتا ہے۔
کہ انسان نے کسی شخص یا کسی ادارے سے کوئی معاہدہ طے کیا ہو۔
اور طے شدہ امور وشرائط پر معاملہ چل رہا ہو تو مناسب نہیں کہ اس ادارے یا افراد پر بلاوجہ معقول طعن وتشنیع کرے۔
یا تو بخیر وخوبی ساتھ نبھائے یا بھلے انداز سے جدا ہو جائے۔
تاہم نصیحت اور خیر خواہی کا اسلامی شرعی اور اخلاق حق اچھے طریقے سے ادا کیا جانا چاہیے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 3763