صحيح مسلم
كِتَاب اللِّبَاسِ وَالزِّينَةِ -- لباس اور زینت کے احکام
3ق. باب تَحْرِيمِ لُبْسِ الْحَرِيرِ وَغَيْرِ ذٰلَكَ لِلرِّجَالِ
باب: مردوں کے لیے ریشم وغیرہ پہننے کی حرمت کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 5409
حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي ، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ مَوْلَى أَسْمَاءَ بِنْتِ أَبِي بَكْرٍ، وَكَانَ خَالَ وَلَدِ عَطَاءٍ، قال: أَرْسَلَتْنِي أَسْمَاءُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَقَالَتْ: بَلَغَنِي أَنَّكَ تُحَرِّمُ أَشْيَاءَ ثَلَاثَةً الْعَلَمَ فِي الثَّوْبِ، وَمِيثَرَةَ الْأُرْجُوَانِ، وَصَوْمَ رَجَبٍ كُلِّهِ، فَقَالَ لِي عَبْدُ اللَّهِ : أَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنْ رَجَبٍ فَكَيْفَ بِمَنْ يَصُومُ الْأَبَدَ؟ وَأَمَّا مَا ذَكَرْتَ مِنَ الْعَلَمِ فِي الثَّوْبِ، فَإِنِّي سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يقول: سمعت رسول اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّمَا يَلْبَسُ الْحَرِيرَ مَنْ لَا خَلَاقَ لَهُ "، فَخِفْتُ أَنْ يَكُونَ الْعَلَمُ مِنْهُ، وَأَمَّا مِيثَرَةُ الْأُرْجُوَانِ فَهَذِهِ مِيثَرَةُ عَبْدِ اللَّهِ، فَإِذَا هِيَ أُرْجُوَانٌ، فَرَجَعْتُ إِلَى أَسْمَاءَ فَخَبَّرْتُهَا، فَقَالَتْ: هَذِهِ جُبَّةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخْرَجَتْ إِلَيَّ جُبَّةَ طَيَالِسَةٍ كِسْرَوَانِيَّةٍ لَهَا لِبْنَةُ دِيبَاجٍ، وَفَرْجَيْهَا مَكْفُوفَيْنِ بِالدِّيبَاجِ فَقَالَتْ: هَذِهِ كَانَتْ عِنْدَ عَائِشَةَ، حَتَّى قُبِضَتْ، فَلَمَّا قُبِضَتْ قَبَضْتُهَا، وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَلْبَسُهَا فَنَحْنُ نَغْسِلُهَا لِلْمَرْضَى يُسْتَشْفَى بِهَا.
حضرت اسماء بنت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام عبداللہ (کیسان) سے روایت ہے، جو کہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہما کا مولیٰ اور عطاء کے لڑکے کا ماموں تھا نے کہا کہ مجھے اسماء رضی اللہ عنہا نے سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے پاس بھیجا اور کہلایا کہ میں نے سنا ہے کہ تم تین چیزوں کو حرام کہتے ہو، ایک تو کپڑے کو جس میں ریشمی نقش ہوں، دوسرے ارجوان (یعنی سرخ ڈھڈھاتا) زین پوش کو اور تیسرے تمام رجب کے مہینے میں روزے رکھنے کو، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رجب کے مہینے کے روزوں کو کون حرام کہے گا؟ جو شخص ہمیشہ روزہ رکھے گا (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہمیشہ روزہ علاوہ عیدین اور ایام تشریق کے رکھتے تھے اور ان کا مذہب یہی ہے کہ صوم دہر مکروہ نہیں ہے)۔ اور کپڑے کے ریشمی نقوش کا تو نے ذکر کیا ہے تو میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سنا وہ کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ حریر (ریشم) وہ پہنے گا جس کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں، تو مجھے ڈر ہوا کہ کہیں نقشی کپڑا بھی حریر (ریشم) نہ ہو اور ارجوانی زین پوش، تو خود عبداللہ کا زین پوش ارجوانی ہے۔ یہ سب میں نے جا کر سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا سے کہا تو انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ جبہ موجود ہے، پھر انہوں نے طیالسی کسروانی جبہ (جو ایران کے بادشاہ کسریٰ کی طرف منسوب تھا) نکالا جس کے گریبان پر ریشم لگا ہوا تھا اور دامن بھی ریشمی تھے۔ سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا نے کہا کہ یہ جبہ ام المؤمنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا۔ جب وہ فوت ہو گئیں تو یہ جبہ میں نے لے لیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو پہنا کرتے تھے اب ہم اس کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو شفاء کے لئے پلاتے ہیں۔
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے آزاد کردہ غلام عبداللہ جو عطارد کی اولاد کے ماموں تھے، بیان کرتے ہیں، مجھے حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما کے پاس بھیجا اور کہا: مجھے خبر ملی ہے کہ آپ تین چیزوں کو حرام ٹھہراتے ہیں، کپڑوں کے نقش و نگار، ارغوانی گدے اور پورے رجب کے روزے تو حضرت عبداللہ ررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مجھے جواب دیا: جو تو نے رجب کے بارے میں کہا تو وہ انسان جو ہمیشہ روزہ رکھتا ہے تو وہ یہ کیسے کہہ سکتا ہے، رہا جو تو نے کپڑے کے نقش و نگار کے بارے میں کہا ہے تو میں نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فرماتے سنا ہے وہ کہتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: ریشم وہی پہنتا ہے جس کا کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس لیے مجھے اندیشہ ہے کہ نقش و نگار اس میں داخل نہ ہو، رہے انتہائی سرخ (ارغوانی) گدے تو یہ عبداللہ کا گدا ہے اور وہ ارغوانی تھا تو میں حضرت اسماء رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے پاس واپس آیا اور انہیں بتایا تو انہوں نے کہا: یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ ہے اور انہوں نے میرے سامنے ایک ارغوانی کسروانی جبہ پیش کیا، جس کا گریبان دیباج کا تھا اور اس کے دامن دیباج سے سلے ہوئے تھے اور انہوں نے بتایا: یہ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وفات تک ان کے پاس تھا، جب وہ وفات پا گئیں تو میں نے لے لیا اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسے پہنتے تھے اور ہم اسے صحت یابی کے لیے دھو کر بیماروں کو پلاتے تھے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5409  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
العلم في الثوب:
کپڑے کے نقش ونگار،
بیل بوٹے۔
(2)
ارجوان:
انتہائی سرخ رنگ،
اگر گدانے سرخ ریشم کا تو جائز نہیں ہے،
ریشم کےعلاوہ سرخ گدا جائز ہے۔
(3)
كيف بمن يصوم الابد:
یہ بات وہ کیسے کہہ سکتا ہے،
جو ممنوعہ ایام کے علاوہ ہمیشہ روزہ رکھتا ہے۔
(4)
خفت ان يكون العلم منه:
مجھے یہ اندیشہ ہے کہ ریشمی نقش ونگار ریشم کے حکم میں نہ ہوں۔
(5)
طيالسة:
طيلسان کی جمع ہے،
بادشاہوں اور سرداروں کا مخصوص لباس۔
(6)
كسروانيه:
کسریٰ ایران کی طرف منسوب ہے۔
(7)
لبنة:
گریبان کا نقش۔
(8)
فروج الجبة:
جبہ کا دامن۔
(9)
خرجان:
اگلا اورپچھلا چاق۔
المكفوف:
سلا ہوا،
گریبان،
آستین اور دامن پر ریشمی بیل بوٹے،
بشرطیکہ چار انگلی سے زائد نہ ہوں،
جائز ہیں۔
فوائد ومسائل:
حضرت اسماء رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جبہ دکھایا،
تاکہ یہ معلوم ہو سکے،
ریشم کے نقش و نگار ریشم کے حکم میں نہیں ہیں۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5409