صحيح البخاري
كِتَاب الْعِلْمِ -- کتاب: علم کے بیان میں
38. بَابُ إِثْمِ مَنْ كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والے کا گناہ کس درجے کا ہے۔
حدیث نمبر: 110
حَدَّثَنَا مُوسَى، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:"تَسَمَّوْا بِاسْمِي، وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي، وَمَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ فِي صُورَتِي، وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ".
ہم سے موسیٰ نے بیان کیا، ان سے ابوعوانہ نے ابی حصین کے واسطہ سے نقل کیا، وہ ابوصالح سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ (اپنی اولاد) کا میرے نام کے اوپر نام رکھو۔ مگر میری کنیت اختیار نہ کرو اور جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو بلاشبہ اس نے مجھے دیکھا۔ کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا اور جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ تلاش کرے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 110  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنے والے کا گناہ کس درجے کا ہے `
«. . . عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: تَسَمَّوْا بِاسْمِي، وَلَا تَكْتَنُوا بِكُنْيَتِي، وَمَنْ رَآنِي فِي الْمَنَامِ فَقَدْ رَآنِي، فَإِنَّ الشَّيْطَانَ لَا يَتَمَثَّلُ فِي صُورَتِي، وَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ . . .»
. . . ابوصالح سے روایت کرتے ہیں، وہ ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ (اپنی اولاد) کا میرے نام کے اوپر نام رکھو۔ مگر میری کنیت اختیار نہ کرو اور جس شخص نے مجھے خواب میں دیکھا تو بلاشبہ اس نے مجھے دیکھا۔ کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا اور جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولے وہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ تلاش کرے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ إِثْمِ مَنْ كَذَبَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:: 110]

تشریح:
ان مسلسل احادیث کا مقصد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف لوگ غلط بات منسوب کر کے دنیا میں خلق کو گمراہ نہ کریں۔ یہ حدیثیں بجائے خود اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ عام طور پر احادیث نبوی کا ذخیرہ مفسد لوگوں کے دست برد سے محفوظ رہا ہے اور جتنی احادیث لوگوں نے اپنی طرف سے گھڑ لیں تھیں ان کو علماءحدیث نے صحیح احادیث سے الگ چھانٹ دیا۔
اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی واضح فرما دیا کہ خواب میں اگر کوئی شخص میری صورت دیکھے تو وہ بھی صحیح ہونی چاہئیے، کیونکہ خواب میں شیطان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں نہیں آ سکتا۔
موضوع اور صحیح احادیث کو پرکھنے کے لیے اللہ پاک نے جماعت محدثین خصوصاً حضرت امام بخاری و مسلم رحمۃ اللہ علیہما جیسے اکابر امت کو پیدا فرمایا۔ جنہوں نے اس فن کی وہ خدمت کی کہ جس کی امم سابقہ میں نظیر نہیں مل سکتی، علم الرجال و قوانین جرح و تعدیل وہ ایجاد کئے کہ قیامت تک امت مسلمہ ان پر فخر کیا کرے گی، مگر صد افسوس کہ آج چودہویں صدی میں کچھ ایسے بھی متعصب مقلد جامد وجود میں آ گئے ہیں جو خود ان بزرگوں کو غیرفقیہ ناقابل اعتماد ٹھہرا رہے ہیں، ایسے لوگ محض اپنے مزعومہ تقلیدی مذاہب کی حمایت میں ذخیرہ احادیث نبوی کو مشکوک بنا کر اسلام کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا چاہتے ہیں۔ اللہ ان کو نیک سمجھ دے۔ آمین۔ یہ حقیقت ہے کہ حضرت امام بخاری رحمہ اللہ کو غیرفقیہ زود رنج بتلانے والے خود بے سمجھ ہیں جو چھوٹا منہ اور بڑی بات کہہ کر اپنی کم عقلی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ اس مقام کی تفصیل میں جاتے ہوئے صاحب انوارالباری نے جماعت اہل حدیث کو باربار لفظ جماعت غیرمقلدین سے جس طنز و توہین کے ساتھ یاد کیا ہے وہ حد درجہ قابل مذمت ہے مگر تقلید جامد کا اثر ہی یہ ہے کہ ایسے متعصب حضرات نے امت میں بہت سے اکابر کی توہین و تخفیف کی ہے۔ قدیم الایام سے یہ سلسلہ جاری ہے۔ معاندین نے تو صحابہ کو بھی نہیں چھوڑا۔ حضرت ابوہریرہ، عقبہ بن عامر، انس بن مالک وغیرہ رضی اللہ عنہم کو غیر فقیہ ٹھہرایا ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 110   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2841  
´نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا نام اور آپ کی کنیت دونوں ایک ساتھ رکھنا مکروہ ہے۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ کوئی شخص آپ کا نام اور آپ کی کنیت دونوں ایک ساتھ جمع کر کے محمد ابوالقاسم نام رکھے ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2841]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سلسلہ میں علماء کا اختلاف ہے،
بعض کا کہنا ہے کہ آپﷺ کی زندگی میں یہ چیز ممنوع تھی،
آپﷺ کے بعد آپﷺ کا نام اورآپﷺ کی کنیت رکھنا درست ہے،
بعض کا کہنا ہے کہ دونوں ایک ساتھ رکھنا منع ہے،
جب کہ بعض کہتے ہیں کہ ممانعت کا تعلق صرف کنیت سے ہے،
پہلا قول راجح ہے۔
(دیکھئے اگلی دونوں حدیثیں)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2841   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4965  
´آدمی اپنی کنیت ابوالقاسم رکھے تو کیسا ہے؟`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے نام پر نام رکھو لیکن میری کنیت نہ رکھو۔‏‏‏‏ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابوصالح نے ابوہریرہ سے اسی طرح روایت کیا ہے، اور اسی طرح ابوسفیان، سالم بن ابی الجعد، سلیمان یشکری اور ابن منکدر وغیرہ کی روایتیں بھی ہیں جو جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہیں، اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت بھی اسی طرح ہے (یعنی اس میں بھی یہی ہے کہ میرے نام پر نام رکھو اور میری کنیت پر کنیت نہ رکھو)۔ [سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4965]
فوائد ومسائل:
رسول اللہ ﷺ کے حین حیات یہ کنیت اختیار کر نا جائز نہیں تھا، مگر آپ کے بعد علماء نے اجازت دے دی ہے کہ آپ ﷺ کا نام اور رکنیت دونوں رکھے جا سکتے ہیں۔
زندگی میں ممانعت کی وجہ یہ واقعہ تھا کہ ایک مرتبہ نبی ﷺ بازار میں تھے کہ ایک شخص نے ابولقاسم کہہ کر آواز دی، آپ نے پیچھت مڑکر دیکھا تو آواز دینے والے نے کہا کہ میں نے آپ کو آواز نہیں دی میں نے تو فلاں شخص کو آواز دی ہے۔
اس واقعے کے بعد آپ نے یہ رکنیت رکھنے سے روک دیا۔
(فتح الباری الاداب حدیث٦١٨٨ مزید تفصیل کے لیے فتح الباری ملاخطہ ہو) جواز کے دلائل اگلےابواب میں آرہے ہیں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4965   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:110  
110. حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، نبی ﷺ نے فرمایا: میرے نام (محمد اور احمد) پر نام رکھو مگر میری کنیت (ابوالقاسم) پر کنیت نہ رکھو۔ اور یقین کرو جس نے مجھے خواب میں دیکھا، اس نے یقیناً مجھ ہی کو دیکھا ہے، کیونکہ شیطان میری صورت میں نہیں آ سکتا۔ اور جو دانستہ مجھ پر جھوٹ باندھے، وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:110]
حدیث حاشیہ:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا ہر صورت میں حرام ہے، خواہ اس کا تعلق بیداری سے ہو یا نیند ہے۔
نیند میں جھوٹ کا مطلب یہ ہے کہ کوئی شخص نہ دیکھنے کے باوجود کہے کہ میں نے آپ کوخواب میں دیکھا ہے۔
اول تو جھوٹ کسی معاملے میں جائز ہی نہیں۔
اگراس کا تعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی سے ہو تو اس کی سنگینی حرمت اور بڑھ جاتی ہے۔
احادیث میں ہے کہ جھوٹے خواب بیان کرنے والے کے سامنے قیامت کے دن جوڈالے جائیں گے اور اس سے کہا جائے گا کہ ان میں لگاؤ۔
(أعاذنا الله منه)
. خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنے کی سعادت ایسی صورت میں بابرکت ہوسکتی ہے جبکہ خواب میں دیکھا ہوا حلیہ کتب حدیث میں موجود آپ کے حلیہ مُبارک کے مطابق ہو۔
آپ کے حلیہ مبارکہ کے متعلق مستند کتاب۔
"الرسول كأنك تراه" بہت مفید ہے،جس کااردو ترجمہ راقم کے قلم سےآئینہ جمال نبوت کے نام سے دارالسلام نے شائع کیا ہے۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ان احادیث کے بیان کرنے میں ایک خاص ترتیب کو ملحوظ رکھا ہے:
پہلی حدیث حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بولنے کی سنگینی کو بیان کیا گیا ہے اور یہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کے قائم کردہ عنوان کے عین مطابق ہے۔
دوسری حدیث حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی روایت کردہ ہے جس میں بیان کیا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین حدیث کونقل کرنے میں کس قدر احتیاط کرتے تھے۔
تیسری حدیث حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہے۔
اس میں احتیاط کی تشریح کی گئی ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کثرت سے بیان کرنے میں احتیاط کرتے تھے، بالکل بیان نہ کرنا ان کا مقصد نہ تھا۔
آخری حدیث جو ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سےمروی ہے، اس میں اشارہ فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ باندھنا ہر صورت میں حرام ہے، خواہ اس کا تعلق بیداری سے ہو یا نیند سے۔
(فتح الباري: 268/1)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 110