صحيح مسلم
كِتَاب السَّلَامِ -- سلامتی اور صحت کا بیان
14. باب جَوَازِ إِرْدَافِ الْمَرْأَةِ الأَجْنَبِيَّةِ إِذَا أَعْيَتْ فِي الطَّرِيقِ:
باب: اگر اجنبی عورت راہ میں تھک گئی ہو تو اس کو اپنے ساتھ سوار کر لینا درست ہے۔
حدیث نمبر: 5693
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، أَنَّ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَخْدُمُ الزُّبَيْرَ خِدْمَةَ الْبَيْتِ، وَكَانَ لَهُ فَرَسٌ وَكُنْتُ أَسُوسُهُ، فَلَمْ يَكُنْ مِنَ الْخِدْمَةِ شَيْءٌ أَشَدَّ عَلَيَّ مِنْ سِيَاسَةِ الْفَرَسِ كُنْتُ أَحْتَشُّ لَهُ وَأَقُومُ عَلَيْهِ وَأَسُوسُهُ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهَا أَصَابَتْ خَادِمًا جَاءَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيٌ فَأَعْطَاهَا خَادِمًا، قَالَتْ: كَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ، فَأَلْقَتْ عَنِّي مَئُونَتَهُ فَجَاءَنِي رَجُلٌ، فَقَالَ يَا أُمَّ عَبْدِ اللَّهِ: إِنِّي رَجُلٌ فَقِيرٌ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَ فِي ظِلِّ دَارِكِ، قَالَتْ: إِنِّي إِنْ رَخَّصْتُ لَكَ، أَبَى ذَاكَ الزُّبَيْرُ فَتَعَالَ فَاطْلُبْ إِلَيَّ وَالزُّبَيْرُ شَاهِدٌ، فَجَاءَ، فَقَالَ يَا أُمَّ عَبْدِ اللَّهِ: إِنِّي رَجُلٌ فَقِيرٌ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَ فِي ظِلِّ دَارِكِ، قَالَتْ: مَا لَكَ بِالْمَدِينَةِ إِلَّا دَارِي؟ فَقَالَ لَهَا الزُّبَيْرُ: مَا لَكِ أَنْ تَمْنَعِي رَجُلًا فَقِيرًا يَبِيعُ، فَكَانَ يَبِيعُ إِلَى أَنْ كَسَبَ، فَبِعْتُهُ الْجَارِيَةَ فَدَخَلَ عَلَيَّ الزُّبَيْرُ وَثَمَنُهَا فِي حَجْرِي، فَقَالَ: هَبِيهَا لِي، قَالَتْ: إِنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهَا ".
ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں گھر کی خدمات سر انجام دےکر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی خدمت کرتی تھی، ان کا ایک گھوڑاتھا، میں اس کی دیکھ بھال کرتی تھی، میرے لیے گھر کی خدمات میں سے گھوڑے کی نگہداشت سے بڑھ کر کوئی اورخدمت زیادہ سخت نہ تھی۔میں اس کے لئے چارہ لاتی، اس کی ہرضرورت کا خیال رکھتی اور اس کی نگہداشت کرتی، کہا: پھر انھیں ایک خادمہ مل گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو آپ نے ان کے لئے ایک خادمہ عطا کردی۔کہا: اس نے مجھ سے گھوڑے کی نگہداشت (کی ذمہ داری) سنبھال لی اور مجھ سے بہت بڑا بوجھ ہٹا لیا۔ میرے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: ام عبداللہ! میں ایک فقیر آدمی ہوں: میرا دل چاہتاہے ہے کہ میں آپ کے گھر کے سائے میں (بیٹھ کرسودا) بیچ لیاکروں۔انھوں نے کہا: اگر میں نے تمھیں اجازت دے دی تو زبیر رضی اللہ عنہ انکار کردیں گے۔جب زبیر رضی اللہ عنہ موجود ہوں تو (اس وقت) آکر مجھ سے اجازت مانگنا، پھر وہ شخص (حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں) آیا اور کہا: ام عبداللہ! میں ایک فقیرآدمی ہوں اور چاہتاہوں کہ میں آپ کے گھر کے سائے میں (بیٹھ کر کچھ) بیچ لیاکروں، انھوں (حضرت اسماء رضی اللہ عنہا) نے جواب دیا: مدینے میں تمھارے لئے میرے گھر کے سوا اور کوئی گھر نہیں ہے؟تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تمھیں کیا ہوا ہے، ایک فقیر آدمی کو سودا بیچنے سے روک رہی ہو؟وہ بیچنے لگا، یہاں تک کہ اس نے کافی کمائی کرلی، میں نے وہ خادمہ اسے بیچ دی۔زبیر رضی اللہ عنہ اند رآئے تو اس خادمہ کی قیمت میری گود میں پڑی تھی، انھوں نے کہا، یہ مجھے ہبہ کردو۔تو انھوں نے کہا: میں اس کو صدقہ کرچکی ہوں۔
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کی خدمات سر انجام دیتی تھی اور ان کا گھوڑا تھا، اس کی بھی دیکھ بھال اور انتظام کرتی تھی اور گھوڑے کی نگہداشت سے زیادہ کوئی خدمت میرے لیے سنگین نہ تھی، میں اس کے لیے گھاس لاتی، اس کی خدمت کرتی اور اس کی دیکھ بھال کرتی، پھر اسے ایک نوکرانی مل گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو آپ نے اسے ایک نوکرانی دی، جو ان کے لیے گھوڑے کے انتظام کے لیے کافی ہو گئی اور اس کی مشقت کا بوجھ اتار دیا، سو ایک دن میرے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا، اے عبداللہ کی ماں! میں ایک محتاج آدمی ہوں، میں آپ کے گھر کے سایہ میں سودا سلف بیچنا چاہتا ہوں، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا، اگر میں نے اپنے طور پر تجھے اجازت دے دی، (تو شاید) حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اس کی اجازت نہیں دیں گے، لہذا تو زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی موجودگی میں آ کر مجھ سے اس کی اجازت طلب کرنا، سو وہ آیا اور کہنے لگا، اے عبداللہ کی ماں! میں ایک محتاج آدمی ہوں، آپ کے گھر کے سایہ میں سامان فروخت کرنا چاہتا ہوں تو میں نے کہا مدینہ میں میرے گھر کے سوا تمہیں کوئی گھر نہیں ملا؟ تو حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا، تم ایک فقیر آدمی کو سامان بیچنے سے کیوں روکتی ہو؟ تو وہ خرید و فروخت کرنے لگا، حتی کہ اس نے کمائی کر لی اور وہ لونڈی میں نے اسے فروخت کر دی، (کیونکہ اب انہیں اس کی ضرورت نہیں تھی) حضرت زبیر میرے پاس آئے تو اس کی قیمت میری جھولی میں تھی، انہوں نے کہا، یہ رقم مجھے دے دو، میں نے کہا، میں یہ صدقہ کر چکی ہوں۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5693  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے حضرت اسماء کے فہم و فراست کا پتہ چلتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی ذہانت اور بیدار مغزی سے ایک فقیر آدمی کو اپنے گھر کے سایہ میں بیٹھنے کی اجازت،
اپنے خاوند کی نفسیات اور غیرت کا اندازہ رکھتے ہوئے دلوائی،
جس سے معلوم ہوتا ہے،
بیوی کو اپنے خاوند کی نفسیات اور جذبات کا لحاظ رکھنا چاہیے،
تاکہ وہ خواہ مخواہ بدظنی کا شکار نہ ہو اور گھر کا ماحول کشیدگی سے محفوظ رہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5693