صحيح مسلم
كِتَاب السَّلَامِ -- سلامتی اور صحت کا بیان
19. باب اسْتِحْبَابِ رُقْيَةِ الْمَرِيضِ:
باب: بیمار پر منتر پڑھنا۔
حدیث نمبر: 5707
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا وقَالَ زُهَيْرٌ: وَاللَّفْظُ لَهُ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي الضُّحَى ، عَنْ مَسْرُوقٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قالت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا اشْتَكَى مِنَّا إِنْسَانٌ مَسَحَهُ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ قَالَ: " أَذْهِبْ الْبَاسَ رَبَّ النَّاسِ، وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافِي لَا شِفَاءَ إِلَّا شِفَاؤُكَ، شِفَاءً لَا يُغَادِرُ سَقَمًا "، فَلَمَّا مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَثَقُلَ أَخَذْتُ بِيَدِهِ لِأَصْنَعَ بِهِ نَحْوَ مَا كَانَ يَصْنَعُ، فَانْتَزَعَ يَدَهُ مِنْ يَدِي، ثُمَّ قَالَ: " اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي وَاجْعَلْنِي مَعَ الرَّفِيقِ الْأَعْلَى "، قَالَتْ: فَذَهَبْتُ أَنْظُرُ فَإِذَا هُوَ قَدْ قَضَى.
جریر نے اعمش سے، انھوں نے ابوضحیٰ سے، انھوں نے مسروق سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی، کہا: جب ہم میں سے کوئی شخص بیمار ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس (کےمتاثرہ حصے) پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے، پھر فرماتے: "تکلیف کو دور کردے، اے تمام انسانوں کے پالنے والے!شفا دے، تو ہی شفا دینے والا ہے، تیری شفا کے سوا کوئی شفا نہیں، ایسی شفا جو بیماری کو (ذرہ برابر باقی) نہیں چھوڑتی۔" پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اورآپ کے لیے اعضاء کو حرکت دینا مشکل ہوگیا تو میں نے آپ کا دست مبارک تھاماتاکہ جس طرح خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیاکرتے تھے، میں بھی اسی طرح کروں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ سے چھڑا لیا، پھر فرمایا: "اے میرے اللہ!مجھے بخش دے اور مجھے رفیق اعلیٰ کی معیت عطا کردے۔" انھوں نے کہا: پھر میں دیکھنے لگی تو آپ رحلت فرماچکے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، جب ہم میں سے کوئی انسان بیمار ہو جاتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر اپنا دایاں ہاتھ پھیرتے، پھر فرماتے تکلیف ختم کر دے، اے لوگوں کے مالک اور صحت بخش تو ہی شفا بخشنے والا ہے، تیری شفا ہی اصل شفا ہے، ایسی شفا بخش، جو کسی قسم کی بیماری نہ چھوڑے۔ تو جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار ہوئے اور اس میں شدت پیدا ہوئی، میں نے آپ کا ہاتھ پکڑ لیا، تاکہ آپ کے ساتھ اس قسم کا سلوک اختیار کروں، جو آپ اختیار کرتے تھے تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ کھینچ کر فرمایا: اے اللہ مجھے معاف فر اور مجھے رفیق اعلیٰ کے ساتھ ملا دے۔ تو میں دیکھنے لگی تو آپصلی اللہ علیہ وسلم کی روح قبض ہو چکی تھی۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1619  
´رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کلمات کے ذریعہ حفاظت و عافیت کی دعا کرتے تھے «أذهب الباس رب الناس. واشف أنت الشافي لا شفاء إلا شفاؤك شفاء لا يغادر سقما» اے لوگوں کے رب! بیماری دور کر دے، اور شفاء دے، تو ہی شفاء دینے والا ہے، شفاء تو بس تیری ہی شفاء ہے، تو ایسی شفاء عنایت فرما کہ کوئی بیماری باقی نہ رہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ بیماری سخت ہو گئی جس میں آپ کا انتقال ہوا، تو میں آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کے جسم پر پھیرتی تھی، اور یہ کلمات کہتی جاتی تھی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہات۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1619]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دعا کے ساتھ اللہ کی پناہ حاصل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بیماری سے حفاظت یا نجات کے لئے ان الفاظ کے ساتھ اللہ سے دعا فرمایا کرتے تھے۔

(2)
بیماری کے موقع پر مسنون الفاظ کے ساتھ دعا اور دم کرنا چاہیے تاکہ ان کی برکت سے اللہ تعالیٰ شفا عطا فرمائے۔

(3)
مشکلات کو حل کرنے اور بیماری سے شفا دینے کا اختیار صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔
خود نبی کریمﷺ نے بھی اللہ ہی سے شفا مانگی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے بھی فرمایا تھا۔
﴿وَإِذَا مَرِضْتُ فَهُوَ يَشْفِينِ﴾  (الشعراء۔ 80، 26)
 اور جب میں بیمار پڑ جاؤں تو وہی مجھے شفا عطا فرماتا ہے۔
اس لئے صحت وعافیت کا سوال صرف اللہ ہی سے کرنا چاہیے۔

(4) (الرفیق الاعلیٰ)
سے مراد انبیاء واولیاء ہیں جو نبی کریمﷺ سے پہلے ر حلت فرما کر جنت میں پہنچ گئے جیسے کہ اگلی حدیث سے اس کی وضاحت ہوتی ہے۔

(5)
رسول اللہ ﷺ کے ان الفاظ کو موت کی تمنا قرار نہیں دینا چاہیے۔
بلکہ یہ اللہ کے فیصلے پر رضامندی (رضا بالقضا)
کا اظہار ہے موت کی تمنا اس وقت منع ہے۔
جب اس کا سبب دنیا کی مشکلات سے پریشانی ہو۔
شہادت کی تمنا بھی ممنوع نہیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1619   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5707  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
یہ دعائیہ کلمات پڑھتے وقت مریض پر ہاتھ پھیرنا چاہیے اور بیماری میں اللہ تعالیٰ ہی مدد کر سکتا ہے،
علاج معالجہ محض ایک ظاہری سبب ہے،
اللہ تعالیٰ کو منظور ہو تو کارگر ہو جاتا ہے،
وگرنہ نہیں اور آخری وقت میں ہر طرف سے کٹ کر اللہ تعالیٰ کی طرف متوجہ ہو جانا،
فعلی اور عملی طور پر توحید ہی کا اقرار کرنا ہے اور یہ کلمہ توحید ہی کے قائم مقام ہے،
اس لیے آپ کا آخری قول،
اللهم اغفرلی واجعلنی مع الرفيق الاعلیٰ اور رفیق اعلیٰ سے مراد جنت ہے،
جہاں ملائکہ اور انبیاء وغیرھم کی رفاقت حاصل ہو گی،
یا اس سے مراد،
انبیاء،
صدیقین،
شہداء اور صالحین ہیں،
جو ایک قلب ہوں گے،
اس لیے مفرد کا صیغہ استعمال ہوا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5707