صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
2. بَابُ الأَمْرِ بِاتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ:
باب: جنازہ میں شریک ہونے کا حکم۔
حدیث نمبر: 1239
حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَشْعَثِ , قَالَ: سَمِعْتُ مُعَاوِيَةَ بْنَ سُوَيْدِ بْنِ مُقَرِّنٍ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" أَمَرَنَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَبْعٍ وَنَهَانَا عَنْ سَبْعٍ، أَمَرَنَا: بِاتِّبَاعِ الْجَنَائِزِ , وَعِيَادَةِ الْمَرِيضِ , وَإِجَابَةِ الدَّاعِي , وَنَصْرِ الْمَظْلُومِ , وَإِبْرَارِ الْقَسَمِ , وَرَدِّ السَّلَامِ , وَتَشْمِيتِ الْعَاطِسِ، وَنَهَانَا عَنْ: آنِيَةِ الْفِضَّةِ , وَخَاتَمِ الذَّهَبِ , وَالْحَرِيرِ , وَالدِّيبَاجِ , وَالْقَسِّيِّ , وَالْإِسْتَبْرَقِ".
ہم سے ابوالولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے اشعث بن ابی الثعثاء نے، انہوں نے کہا کہ میں نے معاویہ بن سوید مقرن سے سنا، وہ براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے نقل کرتے تھے کہ ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سات کاموں کا حکم دیا اور سات کاموں سے روکا۔ ہمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا تھا جنازہ کے ساتھ چلنے، مریض کی مزاج پرسی، دعوت قبول کرنے، مظلوم کی مدد کرنے کا، قسم پوری کرنے کا، سلام کا جواب دینے کا، چھینک پر «يرحمک الله» کہنے کا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں منع کیا تھا چاندی کے برتن (استعمال میں لانے) سے، سونے کی انگوٹھی پہننے سے، ریشم اور دیباج (کے کپڑوں کے پہننے) سے، قسی سے، استبرق سے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1239  
1239. حضرات براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا:رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع فرمایا۔ جن باتوں کا حکم دیا تھا وہ: جنازوں کے ہمراہ جانا، مریض کی عیادت کرنا، دعوت قبول کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، قسم کا پورا کرنا، سلام کاجواب دینا اورچھینکنے والے کے لیے د عا کرنا ہیں۔ اور جن چیزوں سے منع فرمایا وہ: چاندی کے برتنوں کا استعمال اور سونے کی انگوٹھی، ریشم، دیبا، قز اور استبرق (پہننا) ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1239]
حدیث حاشیہ:
دیباج اور قسی اور استبرق یہ بھی ریشمی کپڑوں کی قسمیں ہیں۔
قسی کپڑے شام سے یا مصر سے بن کر آتے اور استبرق موٹا ریشمی کپڑا۔
یہ سب چھ چیزیں ہوئیں۔
ساتویں چیز کا بیان اس روایت میں چھوٹ گیا ہے۔
وہ ریشمی چار جاموں پر سوار ہونا یا ریشمی گدیوں پر جو زین کے اوپر رکھی جاتی ہیں۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1239   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1239  
1239. حضرات براء بن عازب ؓ سے روایت ہے انھوں نےفرمایا:رسول اللہ ﷺ نے ہمیں سات باتوں کا حکم دیا اور سات چیزوں سے منع فرمایا۔ جن باتوں کا حکم دیا تھا وہ: جنازوں کے ہمراہ جانا، مریض کی عیادت کرنا، دعوت قبول کرنا، مظلوم کی مدد کرنا، قسم کا پورا کرنا، سلام کاجواب دینا اورچھینکنے والے کے لیے د عا کرنا ہیں۔ اور جن چیزوں سے منع فرمایا وہ: چاندی کے برتنوں کا استعمال اور سونے کی انگوٹھی، ریشم، دیبا، قز اور استبرق (پہننا) ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1239]
حدیث حاشیہ:
(1)
جن سات چیزوں سے منع کیا گیا ہے ان میں سے اس حدیث میں صرف چھے کا ذکر ہے، ساتویں چیز ریشمی گدیوں کا استعمال ہے جو سواری کی زین پر رکھی جاتی ہیں۔
اس کا ذکر بھی صحیح بخاری ہی کی حدیث:
(5863)
میں ہے۔
ان مامورات و منہیات کو ہم آئندہ تفصیل سے بیان کریں گے۔
اس مقام پر صرف جنازے میں شریک ہونے کی مشروعیت کو بیان کرنا مقصود ہے، اس کی فضیلت کا بیان آگے آئے گا۔
(2)
جنازے کے آگے اور پیچھے دونوں طرف چلنا جائز ہے، لیکن لفظ اتباع کا تقاضا ہے کہ پیچھے پیچھے چلنا افضل ہے۔
علامہ البانی ؒ نے اسی کو ترجیح دی ہے۔
(أحکام الجنائز، ص: 96)
اگرچہ رسول اللہ ﷺ، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر ؓ سے جنازے کے آگے چلنا بھی ثابت ہے۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3179)
حضرت ابو سعید خدری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
بیمار کی تیمارداری کرو اور جنازوں میں شرکت کرو، وہ تمہیں آخرت یاد دلائیں گے۔
(مسند أحمد: 32/3)
حضرت مغیرہ بن شعبہ ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
پیدل چلنے والا جنازے کے پیچھے، آگے، دائیں بائیں اور اس کے قریب ہو کر چل سکتا ہے۔
(سنن أبي داود، الجنائز، حدیث: 3180)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1239