صحيح مسلم
كِتَاب الرُّؤْيَا -- خواب کا بیان
1ق. باب فِي كَوْنِ الرُّؤْيَا مِنَ اللهِ وَأَنَّهَا جُزءٌ مِّنَ النُّبُوَّةِ
باب: خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہیں اور یہ نبوت کا حصہ ہیں۔
حدیث نمبر: 5897
حَدَّثَنَا عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَابْنُ أَبِي عُمَرَ ، جَمِيعًا، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَاللَّفْظُ لِابْنِ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: كُنْتُ أَرَى الرُّؤْيَا أُعْرَى مِنْهَا غَيْرَ أَنِّي لَا أُزَمَّلُ، حَتَّى لَقِيتُ أَبَا قَتَادَةَ ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " الرُّؤْيَا مِنَ اللَّهِ، وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا حَلَمَ أَحَدُكُمْ حُلْمًا يَكْرَهُهُ، فَلْيَنْفُثْ عَنْ يَسَارِهِ ثَلَاثًا، وَلْيَتَعَوَّذْ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّهَا، فَإِنَّهَا لَنْ تَضُرَّهُ "،
عمرو ناقد، اسحٰق بن ابراہیم اور ابن ابی عمر، سب نے ابن عیینہ سے روایت کی، الفاظ ابن ابی عمر کے ہیں، کہا: ہمیں سفیان نے زہریسے، انھوں نے ابو سلمہ سے روایت کی، کہا: میں خواب دیکھتا تھا اور اس سے بخار اور کپکپی جیسی کیفیت میں مبتلا ہو جا تا تھا، بس میں چادرنہیں اوڑھتا تھا یہاں تک کہ میں حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور انھیں یہ بات بتا ئی تو انھوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سنا، آپ نے فر مارہے تھے: " (سچا) خواب اللہ کی طرف سے ہے اور (برا) خواب شیطان کی طرف سے، تم میں سے کوئی شخص جب ایسا خواب دیکھے جو اسے برالگے تو وہ اپنی بائیں جانب تین بار تھوک دے اور (جو اس نے دیکھا) اس کے شر سے اللہ کی پناہ طلب کرے تو وہ اسے ہرگز نقصان نہیں پہنچائے گا۔"
حضرت ابوسلمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،میں خواب دیکھتا تو اس سے مجھے بخار کا لرزہ ہوجاتا، لیکن مجھ پر کپڑا نہیں ڈالا جاتا تھا، حتیٰ کہ میری ملاقات حضرت ابوقتادہ رحمۃ اللہ علیہ سے ہوئی تو میں نے انھیں اپنی کیفیت بتائی تو انہوں نے کہا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: پسندیدہ اور اچھا خواب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہےاور پراگندہ، ڈراؤنا خواب شیطان کی طرف سے ہے تو جب کسی کو ایسا خواب نظر آئے، جو اس کو ناگوار اور ناپسندیدہ ہو تو وہ بائیں طرف تین دفعہ تھوک دے،اور اس کے شر ونقصان سے اللہ کی پناہ میں آئے تو وہ اس کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 6986  
´اچھا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہے`
«. . . عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ مِنَ اللَّهِ، وَالْحُلْمُ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَإِذَا حَلَمَ فَلْيَتَعَوَّذْ مِنْهُ، وَلْيَبْصُقْ عَنْ شِمَالِهِ، فَإِنَّهَا لَا تَضُرُّهُ . . .»
. . . ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اچھا خواب اللہ کی طرف سے ہوتا ہے اور برا خواب شیطان کی طرف سے پس اگر کوئی برا خواب دیکھے تو اسے اس سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہئیے اور بائیں طرف تھوکنا چاہئیے یہ خواب اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا [صحيح البخاري/كِتَاب التَّعْبِيرِ: 6986]
صحیح بخاری کی حدیث نمبر: 6986 کا باب: «بَابُ الرُّؤْيَا الصَّالِحَةُ جُزْءٌ مِنْ سِتَّةٍ وَأَرْبَعِينَ جُزْءًا مِنَ النُّبُوَّةِ:»

باب اورحدیث میں مناسبت:
امام بخاری رحمہ اللہ نے ترجمۃ الباب نیک خواب کا نبوت کے چھیالیس حصوں میں ایک حصہ ہے، اس پر مقرر فرمایا ہے، جبکہ تحت الباب جو حدیث سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی درج فرمائی ہے اس میں نبوت کے چھیالیس حصوں کا کوئی ذکر نہیں ہے، اسی وجہ سے علامہ اسماعیلی اور امام زرکشی نے باب پر اعتراض وارد کیا ہے، چنانچہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں:
«و قد اعترضه الاسماعيلى فقال: ليس هذا الحديث من هذا الباب فى شيئي.»
یعنی اسماعیلی نے باب پر اعتراض وارد کیا ہے کہ جو حدیث تحت الباب امام بخاری رحمہ اللہ نے نقل فرمائی ہے، اس کا کچھ بھی باب سے تعلق نہیں ہے۔
علامہ زرکشی کہتے ہیں:
«إدخاله فى هذا الباب لا وجه له بل هو ملحق بالذي قبله.» [فتح الباري لابن حجر: 320/13]
اس باب کے تحت جو حدیث پیش فرمائی ہے اس کا تعلق اس باب سے نہیں بلکہ اس سے قبل باب کے ساتھ ہے۔
حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ ان دونوں بزرگوں کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں:
«قلت و قد وقع ذالك فى رواية النسفي كما أشرت إليه، و يجاب عن صنيع الأكثر بأن وجه دخوله فى هذه الترجمة الإشارة إلى أن الرؤيا الصالحة إنما كانت جزءًا من أجزاء النبوة لكونها من الله تعالي بخلاف التى من الشيطان فإنها ليست من أجزاء النبوة، و أشار البخاري مع ذالك إلى ما وقع فى بعض الطرق . . . . . عن أبى قتادة فى هذا الحديث من الزيادة و رؤيا المؤمن جزء من ستة و أربعين جزءًا من النبوة.» [فتح الباري لابن حجر: 320/13]
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں کہتا ہوں: نسفی کے نسخے میں ایسا ہی ہے، اکثر کو اس صنع کے متعلق جواب دیا گیا ہے کہ اس باب میں اس حدیث کو ذکر کرنے کا یہ اشارہ ہے کہ رویائے صالحہ اس لیے نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزء ہے کیوں کہ یہ اللہ تعالی کی طرف سے (الہام) ہیں، بخلاف ان خوابوں کے جو شیطان کی طرف سے ہوتے ہیں اور وہ نبوت کے جزء میں سے نہیں ہوتے، اور امام بخاری رحمہ اللہ نے اس روایت کی طرف بھی اشارہ فرمایا ہے جو بعض طرق سے بطریق (حدیث عبداللہ بن یحیی بن ابی کثیر . . . . . عن ابی قتادۃ) سے مروی ہے جس میں یہ زیادتی ہے کہ مومن کا خواب نبوت کے چھیالیس حصوں میں کا ایک حصہ ہے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کی ان گزارشات سے باب اور حدیث میں مناسبت کی بہترین توجیہ سامنے آئی، آپ کا مقصد یہ ہے کہ جو مومن کا نیک خواب ہو گا وہی نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہو گا، اور جو شیطان کی طرف سے ہو گا وہ نبوت کے چھالیس حصوں میں سے کوئی حصہ نہ ہو گا، پس یہ بتلانا مقصود ہے امام بخاری رحمہ اللہ کا۔
محمد زکریا کاندھلوی رحمہ اللہ باب اور حدیث میں مناسبت دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
«وجه دخول هذا الحديث فى هذا الباب الإشارة إلى أن الرؤيا إنما كانت جزءا من أجزاء النبوة لكونها من الله تعالي بخلاف التى من الشيطان فإنها ليست من أجزاء النبوة.» [الابواب والتراجم: 651/6]
یعنی اس حدیث کا تعلق اس باب سے یوں ہے کہ اس میں اشارہ ہے کہ جو خواب اللہ تعالی کی طرف سے ہو گا وہ نبوت کے چھیالیس حصوں میں سے ایک حصہ ہو گا، اور جو شیطان کی طرف سے ہو گا تو وہ اس کے خلاف ہو گا۔
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد دوئم، حدیث/صفحہ نمبر: 275