صحيح مسلم
كِتَاب الْفَضَائِلِ -- انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
37. باب تَوْقِيرِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَتَرْكِ إِكْثَارِ سُؤَالِهِ عَمَّا لاَ ضَرُورَةَ إِلَيْهِ أَوْ لاَ يَتَعَلَّقُ بِهِ تَكْلِيفٌ وَمَا لاَ يَقَعُ وَنَحْوِ ذَلِكَ:
باب: بے ضرورت مسئلے پوچھنا منع ہے۔
حدیث نمبر: 6125
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بَرَّادٍ الْأَشْعَرِيُّ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: " سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ: سَلُونِي عَمَّ شِئْتُمْ، فَقَالَ رَجُلٌ: مَنْ أَبِي؟ قَالَ: أَبُوكَ حُذَافَةُ، فَقَامَ آخَرُ، فَقَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ، فَلَمَّا رَأَى عُمَرُ مَا فِي وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْغَضَبِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّا نَتُوبُ إِلَى اللَّهِ، وَفِي رِوَايَةِ أَبِي كُرَيْبٍ، قَالَ: مَنْ أَبِي يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: أَبُوكَ سَالِمٌ مَوْلَى شَيْبَةَ ".
عبد اللہ بن براداشعری اور (ابو کریب) محمد بن علاءہمدانی نے کہا: ہمیں ابو اسامہ نے یزید سے حدیث بیان کی، انھوں نے ابو بردہ رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چند (ایسی) چیزوں کے بارے میں سوال کیے گئے جو آپ کو پسند نہ آئیں جب زیادہ سوال کیے گئے تو آپ غصے میں آگئے، پھر آپ نے لوگوں سے فرما یا: جس چیز کے بارے میں بھی چاہو مجھ سے پوچھو۔ "ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ کو ن ہے؟آپ نے فرمایا: تمھا را باپ حذافہ ہے۔ دوسرے شخص نے کہا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ کو ن ہے؟آپ نے فرمایا: تمھا را باپ شیبہ کا آزاد کردہ غلام سالم ہے۔" جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر غصے کے آثار دیکھے تو کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم اللہ سے تو بہ کرتے ہیں ابو کریب کی روایت میں ہے کہ اس نے کہا: اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرا باپ کو ن ہے؟آپ نے فرمایا: تمھا را باپ شیبہ کامولیٰ سالم ہے۔"
حضرت ابو موسیٰ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں، نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ چیزوں کے بارے میں سوال کیا گیا، آپ کو ناگوار گزرا، جب سوالات زیادہ ہونے لگے، آپ ناراض ہو گئے، پھر آپ نے لوگوں سے فرمایا: مجھ سے جو مرضی ہے پوچھ لو۔ تو ایک آدمی نے کہا: میرا باپ کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا باپ حذافہ ہے۔ ایک اور آدمی کھڑا ہوا، اس نے بھی پوچھا، میرا باپ کون ہے؟ اے اللہ کے رسو ل صلی اللہ علیہ وسلم! آپ نے فرمایا: تیرا باپ شیبہ کا آزاد کردہ غلام سالم ہے۔ تو جب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرے پر ناراضی کے آثار دیکھے، کہنے لگے، اے اللہ کے رسول! ہم اللہ سے توبہ کرتے ہیں، اس کی طرف لوٹتے ہیں، ابو کریب کی روایت ہے، اس نے کہا، میرا باب کون ہے؟ اے اللہ کے رسول! آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرا باپ شیبہ کا آزاد کردہ غلام سالم ہے۔ یعنی پہلی روایت میں فقال
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 92  
´بےجا سوالات پر استاد کا ناراض ہونا`
«. . . قَالَ: سُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَشْيَاءَ كَرِهَهَا، فَلَمَّا أُكْثِرَ عَلَيْهِ غَضِبَ، ثُمَّ قَالَ لِلنَّاسِ:" سَلُونِي عَمَّا شِئْتُمْ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کچھ ایسی باتیں دریافت کی گئیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو برا معلوم ہوا اور جب (اس قسم کے سوالات کی) آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بہت زیادتی کی گئی تو آپ کو غصہ آ گیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْإِيمَانِ: 92]

تشریح:
لغو اور بے ہودہ سوال کسی صاحب علم سے کرنا سراسر نادانی ہے۔ پھر اللہ کے رسول سے اس قسم کا سوال کرنا تو گویا بہت ہی بے ادبی ہے۔ اسی لیے اس قسم کے بے جا سوالات پر آپ نے غصہ میں فرمایاکہ جو چاہو دریافت کرو۔ اس لیے کہ اگرچہ بشر ہونے کے لحاظ سے آپ غیب کی باتیں نہیں جانتے تھے۔ مگر اللہ کا برگزیدہ پیغمبر ہونے کی بنا پر وحی و الہام سے اکثر احوال آپ کو معلوم ہو جاتے تھے، یا معلوم ہو سکتے تھے جن کی آپ کو ضرورت پیش آتی تھی۔ اسی لیے آپ نے فرمایا کہ تم لوگ نہیں مانتے ہو تو اب جو چاہو پوچھو، مجھ کو اللہ کی طرف سے جو جواب ملے گا تم کو بتلاؤں گا۔ آپ کی خفگی دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیگر حاضرین کی نمائندگی فرماتے ہوئے ایسے سوالات سے باز رہنے کا وعدہ فرمایا۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 92   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6125  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ دوسرا سوال کرنے والا،
سعد بن سالم مولیٰ شیبہ بن ربیعہ ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6125