صحيح مسلم
كِتَاب الْفَضَائِلِ -- انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
42. باب مِنْ فَضَائِلِ مُوسَى صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
باب: سیدنا موسیٰ علیہ السلام کی بزرگی کا بیان۔
حدیث نمبر: 6151
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حُجَيْنُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْفَضْلِ الْهَاشِمِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " بَيْنَمَا يَهُودِيٌّ يَعْرِضُ سِلْعَةً لَهُ، أُعْطِيَ بِهَا شَيْئًا كَرِهَهُ، أَوْ لَمْ يَرْضَهُ، شَكَّ عَبْدُ الْعَزِيزِ، قَالَ: لَا، وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام عَلَى الْبَشَرِ، قَالَ: فَسَمِعَهُ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَلَطَمَ وَجْهَهُ، قَال: تَقُولُ: وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام عَلَى الْبَشَرِ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بَيْنَ أَظْهُرِنَا، قَالَ: فَذَهَبَ الْيَهُودِيُّ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، إِنَّ لِي ذِمَّةً، وَعَهْدًا، وَقَالَ: فُلَانٌ لَطَمَ وَجْهِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِمَ لَطَمْتَ وَجْهَهُ، قَالَ: قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَالَّذِي اصْطَفَى مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام عَلَى الْبَشَرِ، وَأَنْتَ بَيْنَ أَظْهُرِنَا، قَالَ: فَغَضِبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى عُرِفَ الْغَضَبُ فِي وَجْهِهِ، ثُمَّ قَالَ: لَا تُفَضِّلُوا بَيْنَ أَنْبِيَاءِ اللَّهِ، فَإِنَّهُ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ، فَيَصْعَقُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ، وَمَنْ فِي الْأَرْضِ، إِلَّا مَنْ شَاءَ اللَّهُ قَالَ، ثُمَّ يُنْفَخُ فِيهِ أُخْرَى، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ بُعِثَ، أَوْ فِي أَوَّلِ مَنْ بُعِثَ، فَإِذَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام، آخِذٌ بِالْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي، أَحُوسِبَ بِصَعْقَتِهِ يَوْمَ الطُّورِ، أَوْ بُعِثَ قَبْلِي، وَلَا أَقُولُ، إِنَّ أَحَدًا أَفْضَلُ مِنْ يُونُسَ بْنِ مَتَّى عَلَيْهِ السَّلَام ".
حجین بن مثنیٰ نے کہا: ہمیں عبد العز یز بن عبد اللہ بن ابی سلمہ نے عبد اللہ بن فضل ہاشمی سے حدیث بیان کی، انھوں نے عبد الرحمٰن اعرج سے، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک بار ایک یہودی اپنا سامان بیچ رہا تھا اس کو اس کے کچھ معاوضے کی پیش کش کی گئی جو اسے بری لگی یا جس پر وہ راضی نہ ہوا۔شک عبد العزیز کو ہوا۔وہ کہنے لگا نہیں، اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی!انصار میں سے ایک شخص نے اس کی بات سن لی تو اس کے چہرے پر تھپڑلگا یا، کہا: تم کہتے ہو۔ اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں پر فضیلت دی!جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تشریف لا چکے اور) ہمارے درمیان مو جو د ہیں۔کہا: تو وہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا اور کہنے لگا: ابو القاسم!میری ذمہ داری لی گئی ہے اور ہم سے (سلامتی کا) وعدہ کیا گیا ہے۔اور کہا: فلا ں شخص نے میرے منہ پر تھپڑ مارا ہے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: " تم نے اس کے منہ پر تھپڑ کیوں مارا؟کہا کہ اس نے کہا تھا۔اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !۔اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسیٰ کہا: کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے جبکہ آپ ہمارے درمیان مو جود ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آگیا اور آپ کے چہرہ مبارک سے غصےکا پتہ چلنے لگا، پھر آپ نے فرمایا: "اللہ کے نبیوں کے مابین (انھیں ایک دوسرے پر) فضیلت نہ دیا کرو اس لیے کہ جب صور پھونکا جا ئے گا تو سوائے ان کے جنھیں اللہ چا ہے گا آسمانوں اور زمین میں جو مخلوق ہے سب کے ہوش و حواس جا تے رہیں گے، پھر دوبارہ صور پھونکا جا ئے گا، تو سب سے پہلے جسے اٹھا یا جا ئے گا وہ میں ہو ں گا یا (فرمایا) جنھیں سب سے پہلے اٹھا یا جا ئے گا میں ان میں ہو ں گا۔تو (میں دیکھوں گا۔کہ) حضرت موسیٰ علیہ السلام عرش کو پکڑ ے ہو ئے ہوں گے، مجھے معلوم نہیں کہ ان کے لیے یوم طور کی بے ہو شی کو شمار کیا جا ئے گا۔ (اور وہ اس کے عوض اس بے ہوشی سےمستثنیٰ ہو ں گے،) یاانھیں مجھ سے پہلے ہی اٹھا یا جا ئے گا، میں (یہ بھی) نہیں کہتا کہ کوئی (نبی) یو نس بن متی علیہ السلام سے افضل ہے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ایک بار ایک یہودی اپنا سامان بیچ رہا تھا اس کو اس کے کچھ معاوضے کی پیش کش کی گئی جو اسے بری لگی یا جس پر وہ راضی نہ ہوا۔شک عبد العزیز کو ہوا۔وہ کہنے لگا نہیں،اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی!انصار میں سے ایک شخص نے اس کی بات سن لی تو اس کے چہرے پر تھپڑلگا یا،کہا: تم کہتے ہو۔ اس ذات کی قسم جس نے موسیٰ ؑ کو تمام انسانوں پر فضیلت دی!جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تشریف لا چکے اور) ہمارے درمیان مو جو د ہیں۔کہا: تو وہ یہودی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا اور کہنے لگا: ابو القاسم!میری ذمہ داری لی گئی ہے اور ہم سے (سلامتی کا) وعدہ کیا گیا ہے۔اور کہا: فلا ں شخص نے میرے منہ پر تھپڑ مارا ہے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: " تم نے اس کے منہ پر تھپڑ کیوں مارا؟کہا کہ اس نے کہا تھا۔اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !۔اس ذات کی قسم جس نے حضرت موسیٰ کہا: کو تمام انسانوں پر فضیلت دی ہے جبکہ آپ ہمارے درمیان مو جود ہیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو غصہ آگیا اور آپ کے چہرہ مبارک سے غصےکا پتہ چلنے لگا،پھر آپ نے فر یا:"اللہ کے نبیوں کے مابین (انھیں ایک دوسرے پر)فضیلت نہ دیا کرو اس لیے کہ جب صور پھونکا جا ئے گا تو سوائے ان کے جنھیں اللہ چا ہے گا آسمانوں اور زمین میں جو مخلوق ہے سب کے ہوش و حواس جا تے رہیں گے،پھر دوبارہ صور پھونکا جا ئے گا،تو سب سے پہلے جسے اٹھا یا جا ئے گا وہ میں ہو ں گا یا (فرمایا) جنھیں سب سے پہلے اٹھا یا جا ئے گا میں ان میں ہو ں گا۔تو (میں دیکھوں گا۔کہ) حضرت موسیٰ ؑ عرش کو پکڑ ے ہو ئے ہوں گے، مجھے معلوم نہیں کہ ان کے لیے یوم طور کی بے ہو شی کو شمار کیا جا ئے گا۔(اور وہ اس کے عوض اس بے ہوشی سےمستثنیٰ ہو ں گے،)یاانھیں مجھ سے پہلے ہی اٹھا یا جا ئے گا،میں یہ نہیں کہتا کہ کو ئی یو نس بن متی ؑ سے افضل ہے۔"
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 2411  
´قیامت کا ایک منظر`
«...لَا تُخَيِّرُونِي عَلَى مُوسَى، فَإِنَّ النَّاسَ يَصْعَقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَأَصْعَقُ مَعَهُمْ، فَأَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُفِيقُ، فَإِذَا مُوسَى بَاطِشٌ جَانِبَ الْعَرْشِ، فَلَا أَدْرِي أَكَانَ فِيمَنْ صَعِقَ فَأَفَاقَ قَبْلِي، أَوْ كَانَ مِمَّنْ اسْتَثْنَى اللَّهُ .»
۔۔۔مجھے موسیٰ علیہ السلام پر ترجیح نہ دو۔ لوگ قیامت کے دن بیہوش کر دیئے جائیں گے۔ میں بھی بیہوش ہو جاؤں گا۔ بے ہوشی سے ہوش میں آنے والا سب سے پہلا شخص میں ہوں گا، لیکن موسیٰ علیہ السلام کو عرش الٰہی کا کنارہ پکڑے ہوئے پاؤں گا۔ اب مجھے معلوم نہیں کہ موسیٰ علیہ السلام بھی بیہوش ہونے والوں میں ہوں گے اور مجھ سے پہلے انہیں ہوش آ جائے گا۔ یا اللہ تعالیٰ نے ان کو ان لوگوں میں رکھا ہے جو بے ہوشی سے مستثنیٰ ہیں۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْخُصُومَاتِ: 2411]

تخریج الحدیث:
منکرین حدیث کا اشکال،کیا وحی مشکوک ہوتی ہے؟
یہ حدیث صحیح بخاری میں سات مقامات پر ہے:
[2411، 3408، 4813، 3414، 6517، 6518، 7472]
اسے امام بخاری کے علاوہ درج ذیل محدثین نے بھی روایت کیا ہے:
مسلم بن الحجاج [صحيح مسلم: 2373]
طحاوي [مشكل الآثار، طبعه قديمه 1؍445، معاني الآثار 4؍316]
ابويعليٰ [المسند: 6643]
النسائي [السنن الكبريٰ: 7758، 11457]
ابوداود [السنن: 4671]
ترمذي [السنن: 3245 وقال هذا حديث حسن صحيح]
ابن ماجه [السنن: 4274]
البغوي [شرح السنة 15؍106 ح4302 وقال: هذا حديث متفق على صحته]
البيهقي [دلائل النبوة 5؍492]
امام بخاری رحمہ اللہ سے پہلے امام أحمد رحمہ اللہ نے اسے روایت کیا ہے، دیکھئیے:
مسند أحمد بن حنبل [2؍264، 450]
یہ روایت سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے درج ذیل جلیل القدر ثقہ تابعین نے بیان کی ہے۔
① سعید بن المسیب
② ابوسلمہ بن عبدالرحمٰن
③ عبدالرحمٰن الاعرج
④ عامر الشعبی
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ اسے سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ نے بھی روایت کیا ہے:
[صحيح بخاري: 2412]
[و صحيح مسلم: 2374]
[و مصنف ابن ابي شيبه 526/11 ح 31828]
↰ معلوم ہوا کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے، لہٰذا منکر حدیث کا اس سے کیا وحی مشکوک ہوتی ہے؟ کشید کرنا باطل ہے۔
❀ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ میں نہیں جانتا۔ إلخ قرآن کریم کی درج ذیل آیت کے مطابق ہے۔ «وَلَا اَعْلَمُ الْغَيْبَ» (آپ کہہ دیں کہ۔۔۔) اور میں غیب نہیں جانتا۔ [سورة الانعام: 50]
✿ نیز ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ «وَإِنْ أَدْرِيْ أَقَرِيْبٌ أَمْ بَعِيْدٌ مَّا تُوْعَدُوْنَ» [سورة الانبياء: 109]
ترجمہ از شاہ ولی اللہ الدہلوی: «ونمي دانم كه نزديك است يا دور است آنچه وعده داده ميشويد» [ص399]
ترجمہ از شاہ عبدالقادر: اور میں نہیں جانتا، نزدیک ہے یا دور ہے، جو تم کو وعدہ ملتا ہے۔ [ص399]
ترجمہ از أحمد رضا خان بریلوی: میں کیا جانوں کہ پاس ہے یا دور ہے وہ جو تمہیں وعدہ دیا جاتا ہے۔ [ص531]
↰ معلوم ہوا کہ منکرین حدیث حضرات، احادیث صحیحہ کی مخالفت کے ساتھ ساتھ قرآنی آیات کے بھی مخالف ہیں۔ ان کے پاس نہ حدیث ہے اور نہ قرآن ہے، بس وہ اپنی خواہشات اور بعض نام نہاد مفکرین قرآن کے خود ساختہ نظریات و تحریفات کے پیچھے دوڑ رہے ہیں۔ مرنے سے پہلے پہلے رب کریم کی طرف سے مہلت ہے، جو شخص توبہ کرنا چاہے کر لے ورنہ یاد رکھے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے باغیوں اور سرکشوں کے لئے جہنم کی دہکتی ہوئی آگ تیار کر رکھی ہے۔ اے اللہ! تو ہمیں اپنی پناہ میں رکھ۔ اے اللہ! تو ہمیں کتاب وسنت پر ثابت قدم رکھ اور اسی پر ہمارا خاتمہ فرما۔ اے اللہ! ہمارے سارے گناہ معاف فرما دے، آمین۔ [انتهٰي] (13 ذوالقعدہ 1426ھ)
   ماہنامہ الحدیث حضرو ، شمارہ 24، حدیث/صفحہ نمبر: 27   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3245  
´سورۃ الزمر سے بعض آیات کی تفسیر۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ ایک یہودی نے مدینہ کے بازار میں کہا: نہیں، قسم ہے اس ذات کی جس نے موسیٰ علیہ السلام کو تمام انسانوں میں سے چن لیا، (یہ سنا) تو ایک انصاری شخص نے ہاتھ اٹھا کر ایک طمانچہ اس کے منہ پر مار دیا، کہا: تو ایسا کہتا ہے جب کہ (تمام انسانوں اور جنوں کے سردار) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان موجود ہیں۔ (دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت: «ونفخ في الصور فصعق من في السموات ومن في الأرض إلا من شاء الله ثم نفخ فيه أخرى فإذا هم قيام ينظرون» جب صور پھونکا جائے گا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3245]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
جب صور پھونکا جائے گا آواز کی کڑک سے سوائے ان کے جنہیں اللہ چاہے گا آسمانوں و زمین کے سبھی لوگ غشی کھا جائیں گے،
پھر دوبارہ صور پھونکا جائے گا،
تو وہ کھڑے ہوکر دیکھتے ہوں گے (کہ ان کے ساتھ کیا کیا جاتا ہے؟ (الزمر: 69)۔
2؎:
روز حشر کا یہ واقعہ سنانے کہ آپ ﷺ موسیٰ علیہ السلام کی فضیلیت ذکر کرنا چاہتے ہیں نیز اپنی خاکساری کا اظہار فرمار ہے ہیں،
اپنی خاکساری ظاہر کرنا دوسری بات ہے،
اور فی نفسہ موسیٰ علیہ السلام کا تمام انبیاء سے افضل ہونا اور بات ہے البتہ اس طرح کسی نبی کا نام لیکر آپﷺ کے ساتھ مقابلہ کر کے آپﷺ کی فضیلت بیان کرنے والے کو تاؤ میں آکر مار دینا مناسب نہیں ہے،
آپﷺ نے اس وقت یہی تعلیم دہی ہے۔
3؎:
حقیقت میں نبی اکرمﷺ سب سے افضل نبی ہیں،
اور سیدالأنبیاء والرسل ہیں،
لیکن انبیاء کا آپس میں تقابل عام حالات میں صحیح نہیں ہے،
بلکہ خلاف ادب ہے،
اس کا تواضع و انکساری اور انبیاء و رسل کی غرض و احترام میں آپﷺ نے ادب سکھایا اور اس طرح کے موازنہ پر تنقید فرمائی۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3245   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6151  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
انبیاء درجات و مراتب کے اعتبار سے،
ایک دوسرے پر فوقیت اور برتری رکھتے ہیں،
جیسا کہ قرآن مجید میں صراحت ہے،
فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ہم نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت بخشی ہے،
لیکن جب ہم اس فضیلت کو بیان کرنے لگیں گے تو ایک قسم کا موازنہ اور مقابلہ کی صورت پیدا ہو گی،
اس لیے اس میں کسی رسول کی تحقیر و تنقیص کا پہلو پیدا ہو جانے کا اندیشہ ہے اور اسی پہلو سے روکنا مقصود ہے کہ ایسا اسلوب اختیار نہ کرو،
جس سے تحقیر و تنقیص کا پہلو نکلتا ہے اور اس کے ماننے والوں کے جذبات میں اشتعال پیدا ہوتا ہو،
جیسا کہ اس حدیث میں یہودی کے قول سے مسلمان کے جذبات کو ٹھیس پہنچی کہ موسیٰ علیہ السلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ترجیح دے رہا ہے،
اس لیے اس نے تھپڑ رسید کر دیا اور یہاں اگر تھپڑ مارنے والے ابوبکر ہیں تو ان کو معنوی طور پر آپ کی نصرت و حمایت کرنے پر انصاری کہہ دیا گیا ہے۔
پہلے نفخہ کا اثر درندوں اور مردوں دونوں پر ہو گا،
زندے فوت ہو جائیں گے اور مردوں پر بے ہوشی اور گھبراہٹ طاری ہو گی،
انبیاء کو برزخی زندگی حاصل ہے،
جب قیامت کے وقوع کے لیے صور میں پھونکا جائے گا تو اس سے برزخی زندگی بھی ختم ہو جائے گی،
اس لیے جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوسرے نفخہ سے سب سے پہلے ہوش میں آئیں گے تو موسیٰ علیہ السلام کو عرش کے پائے کو پکڑتے ہوئے دیکھیں گے اور اس مسئلہ میں متردد ہوں گے،
موسیٰ علیہ السلام پہلے ہوش میں آ گئے ہیں یا طور کی بے ہوشی کے سبب ان کو اس صعقہ سے مستثنیٰ رکھا گیا ہے،
اس طرح انہیں جزئی فضیلت حاصل ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6151