صحيح مسلم
كِتَاب الْفَضَائِلِ -- انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل
46. باب مِنْ فَضَائِلِ الْخَضِرِ عَلَيْهِ السَّلاَمُ:
باب: سیدنا خضر علیہ السلام کی فضیلت کا بیان۔
حدیث نمبر: 6165
حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّهُ بَيْنَمَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام فِي قَوْمِهِ يُذَكِّرُهُمْ بِأَيَّامِ اللَّهِ، وَأَيَّامُ اللَّهِ نَعْمَاؤُهُ وَبَلَاؤُهُ، إِذْ قَالَ: مَا أَعْلَمُ فِي الْأَرْضِ رَجُلًا خَيْرًا وَأَعْلَمَ مِنِّي، قَالَ: فَأَوْحَى اللَّهُ إِلَيْهِ إِنِّي أَعْلَمُ بِالْخَيْرِ مِنْهُ، أَوْ عِنْدَ مَنْ هُوَ إِنَّ فِي الْأَرْضِ رَجُلًا هُوَ أَعْلَمُ مِنْكَ، قَالَ: يَا رَبِّ فَدُلَّنِي عَلَيْهِ، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: تَزَوَّدْ حُوتًا مَالِحًا فَإِنَّهُ حَيْثُ تَفْقِدُ الْحُوتَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ هُوَ وَفَتَاهُ حَتَّى انْتَهَيَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَعُمِّيَ عَلَيْهِ فَانْطَلَقَ وَتَرَكَ فَتَاهُ، فَاضْطَرَبَ الْحُوتُ فِي الْمَاءِ فَجَعَلَ لَا يَلْتَئِمُ عَلَيْهِ، صَارَ مِثْلَ الْكُوَّةِ، قَالَ: فَقَالَ فَتَاهُ: أَلَا أَلْحَقُ نَبِيَّ اللَّهِ فَأُخْبِرَهُ، قَالَ: فَنُسِّيَ، فَلَمَّا تَجَاوَزَا، قَالَ لِفَتَاهُ: آتِنَا غَدَاءَنَا لَقَدْ لَقِينَا مِنْ سَفَرِنَا هَذَا نَصَبًا، قَالَ: وَلَمْ يُصِبْهُمْ نَصَبٌ حَتَّى تَجَاوَزَا، قَالَ: فَتَذَكَّرَ، قَالَ: أَرَأَيْتَ إِذْ أَوَيْنَا إِلَى الصَّخْرَةِ، فَإِنِّي نَسِيتُ الْحُوتَ وَمَا أَنْسَانِيهُ إِلَّا الشَّيْطَانُ أَنْ أَذْكُرَهُ، وَاتَّخَذَ سَبِيلَهُ فِي الْبَحْرِ عَجَبًا، قَالَ: ذَلِكَ مَا كُنَّا نَبْغِي فَارْتَدَّا عَلَى آثَارِهِمَا قَصَصًا، فَأَرَاهُ مَكَانَ الْحُوتِ، قَالَ: هَاهُنَا وُصِفَ لِي، قَالَ: فَذَهَبَ يَلْتَمِسُ فَإِذَا هُوَ بِالْخَضِرِ، مُسَجًّى ثَوْبًا مُسْتَلْقِيًا عَلَى الْقَفَا، أَوَ قَالَ: عَلَى حَلَاوَةِ الْقَفَا، قَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ فَكَشَفَ الثَّوْبَ عَنْ وَجْهِهِ، قَالَ: وَعَلَيْكُمُ السَّلَامُ، مَنْ أَنْتَ؟ قَالَ: أَنَا مُوسَى، قَالَ: وَمَنْ مُوسَى؟ قَالَ: مُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، قَالَ مَجِيءٌ: مَا جَاءَ بِكَ؟ قَالَ: جِئْتُ تُعَلِّمَنِ مِمَّا عُلِّمْتَ رُشْدًا {66} قَالَ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا {67} وَكَيْفَ تَصْبِرُ عَلَى مَا لَمْ تُحِطْ بِهِ خُبْرًا {68} سورة الكهف آية 66-68 شَيْءٌ أُمِرْتُ بِهِ أَنْ أَفْعَلَهُ إِذَا رَأَيْتَهُ لَمْ تَصْبِرْ قَالَ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ صَابِرًا وَلا أَعْصِي لَكَ أَمْرًا {69} قَالَ فَإِنِ اتَّبَعْتَنِي فَلا تَسْأَلْنِي عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أُحْدِثَ لَكَ مِنْهُ ذِكْرًا {70} فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا رَكِبَا فِي السَّفِينَةِ خَرَقَهَا سورة الكهف آية 69-71 قَالَ: انْتَحَى عَلَيْهَا، قَالَ لَهُ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام: أَخَرَقْتَهَا لِتُغْرِقَ أَهْلَهَا لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا إِمْرًا {71} قَالَ أَلَمْ أَقُلْ إِنَّكَ لَنْ تَسْتَطِيعَ مَعِيَ صَبْرًا {72} قَالَ لا تُؤَاخِذْنِي بِمَا نَسِيتُ وَلا تُرْهِقْنِي مِنْ أَمْرِي عُسْرًا {73} فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا لَقِيَا سورة الكهف آية 71-74 غِلْمَانًا يَلْعَبُونَ، قَالَ: فَانْطَلَقَ إِلَى أَحَدِهِمْ بَادِيَ الرَّأْيِ فَقَتَلَهُ، فَذُعِرَ عِنْدَهَا مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام ذَعْرَةً مُنْكَرَةً قَالَ أَقَتَلْتَ نَفْسًا زَكِيَّةً بِغَيْرِ نَفْسٍ لَقَدْ جِئْتَ شَيْئًا نُكْرًا سورة الكهف آية 74 فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عِنْدَ هَذَا الْمَكَانِ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى مُوسَى لَوْلَا أَنَّهُ عَجَّلَ لَرَأَى الْعَجَبَ، وَلَكِنَّهُ أَخَذَتْهُ مِنْ صَاحِبِهِ ذَمَامَةٌ قَالَ إِنْ سَأَلْتُكَ عَنْ شَيْءٍ بَعْدَهَا فَلا تُصَاحِبْنِي قَدْ بَلَغْتَ مِنْ لَدُنِّي عُذْرًا سورة الكهف آية 76 وَلَوْ صَبَرَ لَرَأَى الْعَجَبَ، قَالَ: وَكَانَ إِذَا ذَكَرَ أَحَدًا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ بَدَأَ بِنَفْسِهِ رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا وَعَلَى أَخِي كَذَا رَحْمَةُ اللَّهِ عَلَيْنَا فَانْطَلَقَا حَتَّى إِذَا أَتَيَا أَهْلَ قَرْيَةٍ سورة الكهف آية 77 لِئَامًا فَطَافَا فِي الْمَجَالِسِ فَاسْتَطْعَمَا أَهْلَهَا فَأَبَوْا أَنْ يُضَيِّفُوهُمَا فَوَجَدَا فِيهَا جِدَارًا يُرِيدُ أَنْ يَنْقَضَّ فَأَقَامَهُ قَالَ لَوْ شِئْتَ لاتَّخَذْتَ عَلَيْهِ أَجْرًا {77} قَالَ هَذَا فِرَاقُ بَيْنِي وَبَيْنِكَ سورة الكهف آية 77-78 وَأَخَذَ بِثَوْبِهِ، قَالَ سَأُنَبِّئُكَ بِتَأْوِيلِ مَا لَمْ تَسْتَطِعْ عَلَيْهِ صَبْرًا {78} أَمَّا السَّفِينَةُ فَكَانَتْ لِمَسَاكِينَ يَعْمَلُونَ فِي الْبَحْرِ سورة الكهف آية 78-79 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ، فَإِذَا جَاءَ الَّذِي يُسَخِّرُهَا وَجَدَهَا مُنْخَرِقَةً، فَتَجَاوَزَهَا فَأَصْلَحُوهَا بِخَشَبَةٍ وَأَمَّا الْغُلامُ سورة الكهف آية 80 فَطُبِعَ يَوْمَ طُبِعَ كَافِرًا، وَكَانَ أَبَوَاهُ قَدْ عَطَفَا عَلَيْهِ، فَلَوْ أَنَّهُ أَدْرَكَ أَرْهَقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا فَأَرَدْنَا أَنْ يُبْدِلَهُمَا رَبُّهُمَا خَيْرًا مِنْهُ زَكَاةً وَأَقْرَبَ رُحْمًا {81} وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ سورة الكهف آية 81-82 إِلَى آخِرِ الْآيَةِ ".
حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے ہمیں حدیث سنائی، کہا: میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: "ایک دن موسیٰ علیہ السلام اپنے لوگوں میں بیٹھے انھیں اللہ کے دن یاد دلارہے تھے (اور) اللہ کے دنوں سے مراد اللہ کی نعمتیں اوراس کی آزمائشیں ہیں، اس وقت انھوں نے (ایک سوال کے جواب میں) کہا: میرے علم میں اس وقت روئے زمین پر مجھ سے بہتر اور مجھ سے زیادہ علم رکھنے والا اور کوئی نہیں، اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میں اس شخص کو جانتاہوں جوان (موسیٰ علیہ السلام) سے بہتر ہےیا (فرمایا:) جس کے پاس ان سے بڑھ کر ہے زمین پر ایک آدمی ہے جو آپ سے بڑھ کر عالم ہے۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: میرے پروردگار مجھے اس کا پتہ بتائیں، (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا: ان سے کہا گیا: ایک نمکین مچھلی کا زاد راہ لے لیں، وہ آدمی وہیں ہوگا جہاں آپ سے وہ مچھلی گم ہوجائے گی۔فرمایا: موسیٰ علیہ السلام اور ان کا نوجوان ساتھی چل پڑے، یہاں تک کہ وہ ایک چٹان کے پاس پہنچے تو ان (حضرت موسیٰ علیہ السلام) پر ایک طرح کی بے خبری طاری ہو گئی اور وہ اپنے جوان کو چھوڑ کر آگے چلے گئے۔ مچھلی (زندہ ہو کر) تڑپی اور پانی میں چلی گئی۔پانی اس کے اوپر اکٹھا نہیں ہو رہا تھا، ایک طاقچے کی طرح ہو گیا تھا۔اس نو جوان نے (اس مچھلی کو پانی میں جاتا ہوا دیکھ لیا اور) کہا: کیا میں اللہ کے نبی (موسیٰ علیہ السلام) کے پاس پہنچ کر انھیں اس بات کی خبر نہ دوں!فرمایا: پھر اسے بھی یہ بات بھلا دی گئی۔جب وہ آگے نکل گئے تو انھوں نے اپنے جوان سے کہا: ہمارا دن کا کھانا لے آؤ، اس سفر میں ہمیں بہت تھکاوٹ ہوگئی فرمایا: ان کو اس وقت تک تھکاوٹ محسوس نہ ہوئی تھی۔یہاں تک کہ وہ (اس جگہ سے) آگے نکل گئے تھے۔فرمایا: تو اس (جوان) کو یادآگیا اور اس نے کہا: آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی بھول گیا اور مجھے شیطان ہی نے یہ بات بھلائی کہ میں اس کا ذکر کروں اور عجیب بات یہ ہے کہ اس (مچھلی) نے (زندہ ہوکر) پانی میں اپنا ر استہ پکڑ لیا۔انھوں نے فرمایا ہمیں اسی کی تلاش تھی پھر وہ دونوں واپس اپنے قدموں کےنشانات پر چل پڑے۔اس نے انھیں مچھلی کی جگہ دیکھائی۔انھوں نے کہا مجھے اسی جگہ کے بارے میں بتایا گیا تھا وہ تلاش میں چل پڑے تو انھیں حضرت خضر علیہ السلام اپنے اردگرد کپڑا لپیٹے نظرآگئے گدی کے بل (سیدھے) لیٹے ہوئے تھے یا کہا: گدی کے درمیانے حصے کےبل لیٹے ہوئے تھے۔انھوں نے کہا: السلام علیکم! (خضر علیہ السلام نے) کہا: وعلیکم السلام! پوچھا: آپ کون ہیں؟کہا: میں موسیٰ علیہ السلام ہوں، پوچھا، کون موسیٰ؟کہا: بنی اسرائیل کے موسیٰ، پوچھا: کیسے آنا ہوا ہے؟ کہا: میں اس لئے آیا ہوں کہ صحیح ر استے کا جو علم آپ کو دیاگیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں۔ (خضر علیہ السلام نے) کہا: میری معیت میں آپ صبر نہ کرپائیں گے۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: ان شاء اللہ، آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔انھوں نے کہا: اگر آپ میرے پیچھے چلتے ہیں تو مجھ سے اس وقت تک کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کریں جب تک میں خود اس کا ذکر شروع نہ کروں، پھر وہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو انھوں (خضر علیہ السلام) نے اس میں لمبا سا سوراخ کردیا۔کہا: انھوں نے کشتی پر اپنا پہلو کازور ڈالا (جس سے اس میں درز آگئی) موسیٰ علیہ السلام نے انھیں کہا: آپ نے اس لئے اس میں درز ڈالی کہ انھیں غرق کردیں۔آپ نے عجیب کام کیا۔ (خضر علیہ السلام نے) کہا: میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ کسی صورت صبر نہ کرسکیں گے۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: میرے بھول جانے پر میرا مواخذہ نہ کریں اور میرے معاملے میں مجھ سے سخت برتاؤ نہ کریں۔دونوں (پھر) چل پڑے یہاں تک کہ وہ کچھ لڑکوں کے پاس پہنچے،، وہ کھیل رہے تھے۔وہ (خضر علیہ السلام) تیزی سے ایک لڑکے کی طرف بڑھے اور اسے قتل کردیا۔اس پر موسیٰ علیہ السلام سخت گھبراہٹ کا شکار ہوگئے۔انھوں نے کہا: کیا آپ نے ایک معصوم جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر مار دیا؟"اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ہم پر اور موسیٰ علیہ السلام پر اللہ کی رحمت ہو! اگر وہ جلدبازی نہ کرتے تو (اور بھی) عجیب کام دیکھتے، لیکن انھیں اپنے ساتھی سے شرمندگی محسوس ہو ئی، کہا: اگر میں اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں، آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ گئے اور (فرما یا:) اگر موسیٰ علیہ السلام صبر کرتے تو (اوربھی) عجائبات کا مشاہدہ کرتے۔" (ابھی بن کعب رضی اللہ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب انبیاء علیہ السلام میں سے کسی کا ذکر کرتے تو اپنی ذات سے شروع (فرما تے): "ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور ہمارے فلاں بھا ئی پر ہم اللہ کی رحمت ہو!۔۔۔پھر وہ دونوں (آگے) چل پڑے یہاں تک کہ ایک بستی کے بخیل لو گوں کے پاس آئے۔کئی مجا لس میں پھر ےاور ان لوگوں سے کھا نا طلب کیا لیکن انھوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کردیا، پھر انھوں نے اس (بستی) میں ایک دیوار دیکھی جو گرنے ہی والی تھی کہ انھوں (خضر علیہ السلام) نے اسے سیدھا کھڑا کردیا۔ (موسیٰ علیہ السلام نے) کہا: اگرآپ چاہتے تو اس پر اُجرت (بھی) لے سکتے تھے۔انھوں نےکہا: یہ میرے اور آپ کے درمیان مفارقت (کا وقت) ہے۔اور انھوں (موسیٰ علیہ السلام) نے ان کا کپڑا تھام لیا (تاکہ وہ جدا نہ ہوجائیں اور کہا کہ مجھے ان کی حقیقت بتادو) کہا: میں ابھی آپ کوان (کاموں) کی حقیقت بتاتاہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔جو کشتی تھی وہ ایسے مسکین لوگوں کی تھی جو سمندر میں (ملاحی کا) کام کرتے ہیں۔"آیت کے آخر تک"جب اس پر قبضہ کرنے والا آئے گا تو اسے سوراخ والی پائے گا اور آگے بڑھ جائے گا اور یہ لوگ ایک لکڑی (کے تختے) سے اس کو ٹھیک کرلیں گے اور جو لڑکا تھا تو جس دن اس کی سرشت (فطرت) بنائی گئی وہ کفر پر بنائی گئی۔اس کے والدین کو اس کے ساتھ شدید لگاؤ ہے۔اگروہ اپنی بلوغت تک پہنچ جاتا تو اپنی سرکشی اور کفر سے انہیں عاجز کردیتا۔ہم نے چاہا کہ اللہ ان دنوں کو اس کے بدلے میں پاکبازی میں بڑھ کر صلہ رحمی کے اعتبارسے بہتر بدل عطا فرمادے اور رہی دیوار تو وہ شہر کے دو یتیم لڑکوں کی تھی (اور اس کے نیچے ان دونوں کاخزانہ دفن تھا۔) "آیت کے آخرتک۔
حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:"ایک دن موسیٰ ؑ اپنے لوگوں میں بیٹھے انھیں اللہ کے دن یاد دلارہے تھے(اور) اللہ کے دنوں سے مراد اللہ کی نعمتیں اوراس کی آزمائشیں ہیں،اس وقت انھوں نے(ایک سوال کے جواب میں)کہا:میرے علم میں اس وقت روئے زمین پر مجھ سے بہتر اور مجھ سے زیادہ علم رکھنے والا اور کوئی نہیں،اس پر اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف وحی کی کہ میں اس شخص کو جانتاہوں جوان(موسیٰ ؑ) سے بہتر ہےیا(فرمایا:)جس کے پاس ان سے بڑھ کر ہے زمین پر ایک آدمی ہے جو آپ سے بڑھ کر عالم ہے۔(موسیٰ ؑ نے) کہا:میرے پروردگار مجھے اس کا پتہ بتائیں،(رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے) فرمایا:ان سے کہا گیا:ایک نمکین مچھلی کا زاد راہ لے لیں،وہ آدمی وہیں ہوگا جہاں آپ سے وہ مچھلی گم ہوجائے گی۔فرمایا:موسیٰ ؑ اور ان کا نوجوان ساتھی چل پڑے،یہاں تک کہ وہ ایک چٹان کے پاس پہنچے تو ان(حضرت موسیٰ ؑ)پر ایک طرح کی بے خبری طاری ہو گئی اور وہ اپنے جوان کو چھوڑ کر آگے چلے گئے۔ مچھلی (زندہ ہو کر)تڑپی اور پانی میں چلی گئی۔پانی اس کے اوپر اکٹھا نہیں ہو رہا تھا،ایک طاقچے کی طرح ہو گیا تھا۔اس نو جوان نے(اس مچھلی کو پانی میں جاتا ہوا دیکھ لیا اور)کہا:کیا میں اللہ کے نبی (موسیٰ ؑ) کے پاس پہنچ کر انھیں اس بات کی خبر نہ دوں!فرمایا:پھر اسے بھی یہ بات بھلا دی گئی۔جب وہ آگے نکل گئے تو انھوں نے اپنے جوان سے کہا:ہمارا دن کا کھانا لے آؤ،اس سفر میں ہمیں بہت تھکاوٹ ہوگئی فرمایا:ان کو اس وقت تک تھکاوٹ محسوس نہ ہوئی تھی۔یہاں تک کہ وہ(اس جگہ سے) آگے نکل گئے تھے۔فرمایا:تو اس(جوان) کو یادآگیا اور اس نے کہا:آپ نے دیکھا کہ جب ہم چٹان کے پاس بیٹھے تھے تو میں مچھلی بھول گیا اور مجھے شیطان ہی نے یہ بات بھلائی کہ میں اس کا ذکر کروں اور عجیب بات یہ ہے کہ اس (مچھلی) نے(زندہ ہوکر)پانی میں اپنا ر استہ پکڑ لیا۔انھوں نے فرمایا ہمیں اسی کی تلاش تھی پھر وہ دونوں واپس اپنے قدموں کےنشانات پر چل پڑے۔اس نے انھیں مچھلی کی جگہ دیکھائی۔انھوں نے کہا مجھے اسی جگہ کے بارے میں بتایا گیا تھا وہ تلاش میں چل پڑے تو انھیں حضرت خضر ؑ اپنے اردگرد کپڑا لپیٹے نظرآگئے گدی کے بل(سیدھے) لیٹے ہوئے تھے یا کہا:گدی کے درمیانے حصے کےبل لیٹے ہوئے تھے۔انھوں نے کہا:السلام علیکم!(خضر ؑ نے) کہا:وعلیکم السلام! پوچھا: آپ کون ہیں؟کہا: میں موسیٰ ؑ ہوں،پوچھا،کون موسیٰ؟کہا:بنی اسرائیل کے موسیٰ،پوچھا:کیسے آنا ہوا ہے؟ کہا: میں اس لئے آیا ہوں کہ صحیح ر استے کا جو علم آپ کو دیاگیا ہے وہ آپ مجھے بھی سکھا دیں۔(خضر ؑ نے) کہا:میری معیت میں آپ صبر نہ کرپائیں گے۔(موسیٰ ؑ نے)کہا:ان شاء اللہ،آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے اور میں کسی بات میں آپ کی خلاف ورزی نہیں کروں گا۔انھوں نے کہا:اگر آپ میرے پیچھے چلتے ہیں تو مجھ سے اس وقت تک کسی چیز کے بارے میں سوال نہ کریں جب تک میں خود اس کا ذکر شروع نہ کروں،پھر وہ دونوں چل پڑے یہاں تک کہ جب وہ دونوں ایک کشتی میں سوار ہوئے تو انھوں(خضر ؑ) نے اس میں لمبا سا سوراخ کردیا۔کہا:انھوں نے کشتی پر اپنا پہلو کازور ڈالا(جس سے اس میں درز آگئی)موسیٰ ؑ نے انھیں کہا:آپ نے اس لئے اس میں درز ڈالی کہ انھیں غرق کردیں۔آپ نے عجیب کام کیا۔(خضر ؑ نے) کہا:میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ کسی صورت صبر نہ کرسکیں گے۔(موسیٰ ؑ نے) کہا:میرے بھول جانے پر میرا مواخذہ نہ کریں اور میرے معاملے میں مجھ سے سخت برتاؤ نہ کریں۔دونوں(پھر) چل پڑے یہاں تک کہ وہ کچھ لڑکوں کے پاس پہنچے،،وہ کھیل رہے تھے۔وہ(خضر ؑ) تیزی سے ایک لڑکے کی طرف بڑھے اور اسے قتل کردیا۔اس پر موسیٰ ؑ سخت گھبراہٹ کا شکار ہوگئے۔انھوں نے کہا: کیا آپ نے ایک معصوم جان کو کسی جان کے بدلے کے بغیر مار دیا؟"اس مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فر یا:"ہم پر اور موسیٰ ؑ پر اللہ کی رحمت ہو! اگر وہ جلدبازی نہ کرتے تو (اور بھی)عجیب کام دیکھتے،لیکن انھیں اپنے ساتھی سے شرمندگی محسوس ہو ئی،کہا: اگر میں اس کے بعد آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں،آپ میری طرف سے عذر کو پہنچ گئے اور (فر یا:) اگر موسیٰ ؑ صبر کرتے تو (اوربھی) عجائبات کا مشاہدہ کرتے۔"(ابھی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب انبیاء ؑ میں سے کسی کا ذکر کرتے تو اپنی ذات سے شروع (فر تے):"ہم پر اللہ کی رحمت ہو اور ہمارے فلاں بھا ئی پر ہم اللہ کی رحمت ہو!۔۔۔پھر وہ دونوں (آگے) چل پڑے یہاں تک کہ ایک بستی کے بخیل لو گوں کے پاس آئے۔کئی مجا لس میں پھر ےاور ان لوگوں سے کھا نا طلب کیا لیکن انھوں نے ان کی مہمانداری سے صاف انکار کردیا،پھر انھوں نے اس(بستی) میں ایک دیوار دیکھی جو گرنے ہی والی تھی کہ انھوں(خضر ؑ) نے اسے سیدھا کھڑا کردیا۔(موسیٰ ؑ نے) کہا:اگرآپ چاہتے تو اس پر اُجرت(بھی) لے سکتے تھے۔انھوں نےکہا:یہ میرے اور آپ کے درمیان مفارقت(کا وقت) ہے۔اور انھوں(موسیٰ ؑ) نے ان کا کپڑا تھام لیا(تاکہ وہ جدا نہ ہوجائیں اور کہا کہ مجھے ان کی حقیقت بتادو)کہا:میں ابھی آپ کوان(کاموں) کی حقیقت بتاتاہوں جن پر آپ صبر نہیں کرسکے۔جو کشتی تھی وہ ایسے مسکین لوگوں کی تھی جو سمندر میں(ملاحی کا) کام کرتے ہیں۔"آیت کے آخر تک"جب اس پر قبضہ کرنے والا آئے گا تو اسے سوراخ والی پائے گا اور آگے بڑھ جائے گا اور یہ لوگ ایک لکڑی(کے تختے) سے اس کو ٹھیک کرلیں گے اور جو لڑکا تھا تو جس دن اس کی سرشت(فطرت) بنائی گئی وہ کفر پر بنائی گئی۔اس کے والدین کو اس کے ساتھ شدید لگاؤ ہے۔اگروہ اپنی بلوغت تک پہنچ جاتا تو اپنی سرکشی اور کفر سے انہیں عاجز کردیتا۔ہم نے چاہا کہ اللہ ان دنوں کو اس کے بدلے میں پاکبازی میں بڑھ کر صلہ رحمی کے اعتبارسے بہتر بدل عطا فرمادے اور رہا دیوار کا معاملہ تو وہ شہر کے دو یتیم بچوں کی تھی اور اس کے نیچے ان کا خزانہ تھا اور ان کا باپ ایک اچھا نیک آدمی تھا،آیت نمبر۔82 کے آخر تک۔
  الشيخ محمد حسين ميمن حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 122  
´اللہ سب سے زیادہ علم رکھتا ہے`
«. . . عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ فَقَالَ: أَنَا أَعْلَمُ، فَعَتَبَ اللَّهُ عَلَيْهِ إِذْ لَمْ يَرُدَّ الْعِلْمَ إِلَيْهِ . . .»
. . . رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا کہ (ایک روز) موسیٰ علیہ السلام نے کھڑے ہو کر بنی اسرائیل میں خطبہ دیا، تو آپ سے پوچھا گیا کہ لوگوں میں سب سے زیادہ صاحب علم کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں ہوں۔ اس وجہ سے اللہ کا غصہ ان پر ہوا کہ انہوں نے علم کو اللہ کے حوالے کیوں نہ کر دیا . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ: 122]

فوائد و مسائل:
باب اور حدیث میں مناسبت:
باب اور حدیث میں مناسبت بہت قریب قریب ہے باب قائم فرمایا کہ جب پوچھا جائے کہ کون بڑا عالم ہے تو جواباً مفتی کو یہی فرمانا چاہیے کہ اللہ جانتا ہے لہٰذا حدیث میں موسیٰ علیہ السلام پر عتاب فرمانا یہی دلیل ہے کہ موسیٰ علیہ السلام نے علم کی نسبت اپنے لیے فرمائی، لہٰذا ان کو علم کی نسبت اللہ تعالیٰ کی طرف کرنی چاہیے تھی، لہٰذا یہیں سے باب اور حدیث میں مناسبت معلوم ہوتی ہے۔

◈ علامہ محمود حسن رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یعنی عالم سے جب «اي الناس اعلم» کا سوال کیا جائے تو «انا اعلم» کہنا پسندیدہ نہیں۔ اگرچہ اس کا اس وقت میں «اعلم الناس» ہونا محقق ہو، بلکہ مستحب یہ ہے کہ اس جواب میں «الله اعلم» کہے۔ چنانچہ حدیث باب سے یہ امر روشن ہے۔‏‏‏‏ [الأبواب والتراجم. ص 57]

سابقہ باب «الخروج فى طلب العلم» میں امام بخاری رحمہ اللہ نے یہ الفاظ ذکر فرمائے کہ جب موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا گیا کہ «هل تعلم احدا اعلم منك؟» کہ کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ سے زیادہ بڑا کوئی اور عالم ہے؟ اور مذکورہ باب کے تحت یہ الفاظ وارد ہیں «انا اعلم»، لہٰذا یہ کوئی اختلاف نہیں ہے۔

حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «وعندي لا مخالفة بينهما» کہ میرے نزدیک ان دونوں میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ [فتح الباري، ج2، ص199]

فائدہ نمبر
فتوی کے آداب اور ان مسائل پر کئی پہلو سے گفتگو کے لیے ان کتب کا مطالعہ مفید ہے۔
➊ الشیخ حامد العمادی الدمشقی کی کتاب صلاح العالم بافتاء العالم
➋ فتاویٰ ابن الصلاح
الفتاویٰ المصریۃ للعز بن عبدالسلام
➍ فتاویٰ النووی
➍ فتاوی شمس الدین الرملی

نوٹ:
صلاۃ الرغائب سے متعلق ابن الصلاح اور العز بن عبدالسلام کے درمیان جو اختلاف رائے ہوا تھا وہ بھی تاریخی شہرت کا حامل ہے امام سبکی نے طبقات الشافیعۃ الکبرى میں خاص طور پر اس کا ذکر فرمایا۔

فائدہ نمبر
مذکورہ واقعہ سیدنا موسیٰ و خضر علیہما السلام کا ہے بعض لاعلم طبقہ خضر علیہ السلام کو حیات سمجھتا ہے کہ وہ اب بھی زندہ ہیں یہ فاسد اور باطل نظریہ قرآن و سنت سے دور ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا صحابہ کرام کو خطاب کرتے ہوئے کہ! تمہاری آج کی رات وہ رات ہے کہ اس رات سے سو برس کے آخر تک کوئی شخص جو زمین پر ہے وہ باقی نہیں رہے گا۔ [صحيح البخاري رقم الحديث 116]
↰ لہٰذا اس حدیث کے مطابق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وقت جو بھی کوئی زمین پر زندہ تھا وہ انتقال کر گیا ہے۔

◈ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:
اگر خضر علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان پر واجب تھا کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے علم حاصل کرتے اور آپ کی معیت میں جہاد کرتے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ بدر کے دوران فرمایا تھا۔
«اللهم ان تهلك هذه العصابة لا تعبد فى الارض»
اے اللہ اگر یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو روئے زمین پر تیری عبادت نہیں ہو گی۔
↰ یہ جماعت تین سو تیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر مشتمل تھی۔ ان کے ناموں کی مع ولدیت و قبیلہ فہرست موجود ہے جو معروف ہے۔ مگر اس میں خضر علیہ السلام کا نام تک نہیں۔

خضر علیہ السلام کی حیات کے دلائل کا تجزیہ:
خضر علیہ السلام سیدنا آدم علیہ السلام کے صلبی بیٹے تھے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ خضر علیہ السلام، آدم علیہ السلام کے صلبی بیٹے تھے۔ ان کی عمر کو دراز کر دیا گیا یہاں تک کہ وہ دجال کی تکذیب کریں گے۔
◈ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس روایت کے بارے میں رقم طراز ہیں:
دارقطنی نے اس کو «دواد بن جراح عن مقاتل بن سليمان عن الضحاك» کے طریق سے روایت کیا ہے۔
دؤاد بن جراح ضعیف مقاتل متروک ہے ضحاک نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کچھ نہیں سنا۔
↰ لہٰذا یہ روایت ضعیف ہونے کے ساتھ ساتھ منقطع بھی ہے۔ [الاصابة، ص429]

سيدنا على رضى الله عنه سے ملاقات:
ایک روایت سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب ہے کہ میں نے بیت اللہ کا طواف کرتے ہوئے ایک شخص کو دیکھا جو کعبہ کا غلاف پکڑے ہوئے کہہ رہا تھا: «يا من لايشغله سمع عن سمع» اس روایت کے آخر میں ہے وہ کہہ رہا تھا جس کے ہاتھ میں خضر کی جان ہے۔
◈ امام ابن جوزی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔ اس کا ایک راوی محمد بن ہروی مجہول ہے، دوسرا راوی عبداللہ بن محرز یا محرر متروک ہے۔
◈ امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں: لوگوں نے اس کی حدیث چھوڑ دی تھی۔
◈ ابن مناوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میری اس سے ملاقات ہوئی ہے میرے نزدیک اس سے تو بکری کی مینگنی زیادہ محبوب ہے۔ [كتاب الموضوعات، ج1، ص140]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر خضرعلیہ السلام کی تعزیت:
مستدرک حاکم میں روایت ہے کہ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتقال ہوا تو صحابہ جمع تھے۔ ایک خوبرو سفید داڑھی والا آدمی داخل ہوا، روایت کے آخری الفاظ ہیں کہ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ و سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ یہ شخص خضر علیہ السلام ہے۔ [المستدرک الحاکم ج3 ص55]
↰ مذکورہ بالا روایت میں عباد بن عبدالصمد ہے۔
◈ امام ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ سخت ضعیف ہے۔
◈ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں منکر الحدیث ہے۔
◈ امام ابوحاتم رحمہ اللہ فرماتے ہیں سخت ضعیف ہے۔
◈ ابن عدی فرماتے ہیں ضعیف اور غالی شیعہ تھا۔ تفصيل كے لئے ديكهيے: [ميزان الاعتدال، ج2، ص269]
↰ ان روایات کے علاوہ اور بھی کئی روایات ہیں جو خضر علیہ السلام کی زندگی کو ثابت کرتی ہیں مگر وہ تمام روایات ضعیف، منقطع اور ناقابل حجت ہیں۔

فائدہ نمبر
مذکورہ بالا حدیث میں علم کے لیے سفر کرنا ثابت ہوا۔ کیونکہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام بطور غرض علم کے، آپ سفر پر نکلے اور کوئی بعید نہیں کہ امام بخاری رحمہ اللہ علم کے لیے سفر کرنے کے جواز پر اس حدیث سے بھی دلیل لیتے ہیں جیسا کہ سابقہ باب «خروج فى طلب العلم» میں ثابت فرمایا۔ سلف میں ان گنت ایسے واقعات معروف ہیں جن سے طلب علم کے سفر کو اختیار کرنا اور مشقت برداشت کرنے کو پسند کیا گیا ہے۔ چند واقعات نظر قرطاس ہیں:
➊ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے جلیل القدر صحابی تھے آپ نے ایک مہینہ کا مشقت کے ساتھ سفر کیا صرف ایک حدیث کی خاطر۔ [الرحلة للخطيب ص 109، ابن عاصم فى السنة رقم 514]
➋ سیدنا سائب بن یزید رضی اللہ عنہ (المتوفی80ھ) نے ایک حدیث میں شک کے ازالہ کے لیے سیدنا عقبہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے جس کے لیے آپ نے مصر کا سفر طے کیا۔ [حسن المحاضرة فى اخبار المصروالقاهرة، ج1، ص86]
➌ سیدنا عبدللہ بن فیروز الدیلمی رضی اللہ عنہ بیت المقدس سے مدینہ طیبہ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس دین کی کوئی بات پوچھنے کے لیے روانہ ہوئے، جب مدینہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما مکہ تشریف لے گئے ہیں، جب وہ مکہ پہنچے تو معلوم ہوا کہ آپ طائف تشریف لے گئے ہیں۔ چنانچہ آپ طائف پہنچے اور ان سے حدیث حاصل کی اور واپس روانہ ہو گئے۔ [المستدرك، ج1 ص257، وقال الذهبي صحيح]
➍ سیدنا سعید المسیب رحمہ اللہ (المتوفی94ھ) کا بیان ہے کہ میں صرف ایک حدیث کے لیے کئی کئی دنوں اور راتوں کا سفر طے کیا کرتا تھا۔ [معرفت علوم الحديث، ص8]
➎ عکرمہ رحمہ اللہ (المتوفی 105ھ) جو سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہا کے خصوصی شاگرد تھے اور محدث و فقیہ بھی تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں قرآن کریم کی ایک آیت کے شان نزول کے سلسلہ میں چودہ سال سرگردان رہا، آخر اس کا علم ہوا تو اطمینان نصیب ہوا۔ [فتح القدير ج1 ص4]
➏ سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے سیدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے صرف ایک حدیث کی خاطر مدینہ سے مصر تک سفر کیا جس کی مسافت ایک ماہ بنتی ہے۔ [مسند حميدي ج1 ص189]
➐ عبید اللہ بن عدی نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے حدیث سننے کے لیے مدینہ طیبہ سے عراق تک کا سفر کیا جو ایک ماہ تک کی مسافت کا ہے۔ [فتح الباري ج1 ص175]
   عون الباری فی مناسبات تراجم البخاری ، جلد اول، حدیث/صفحہ نمبر: 113   
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 122  
´موسیٰ علیہ السلام اور خضر علیہ السلام کا قصہ`
«. . . سَعِيدُ بْنُ جُبَيْرٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ إِنَّ نَوْفًا الْبَكَالِيَّ يَزْعُمُ أَنَّ مُوسَى لَيْسَ بِمُوسَى بَنِي إِسْرَائِيلَ، إِنَّمَا هُوَ مُوسَى آخَرُ، فَقَالَ: كَذَبَ عَدُوُّ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " قَامَ مُوسَى النَّبِيُّ خَطِيبًا فِي بَنِي إِسْرَائِيلَ، فَسُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ؟ . . .»
. . . سعید بن جبیر رضی اللہ عنہ نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا یہ خیال ہے کہ موسیٰ علیہ السلام (جو خضر علیہ السلام کے پاس گئے تھے وہ) موسیٰ بنی اسرائیل والے نہیں تھے بلکہ دوسرے موسیٰ تھے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ مَا يُسْتَحَبُّ لِلْعَالِمِ إِذَا سُئِلَ أَيُّ النَّاسِ أَعْلَمُ فَيَكِلُ الْعِلْمَ إِلَى اللَّهِ:: 122]

تشریح:
نوف بکالی تابعین سے تھے، سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے غصہ کی حالت میں اللہ کا دشمن کہہ دیا۔ کیونکہ انہوں نے صاحب خضر موسیٰ بن میشا کو کہہ دیا تھا جو کہ یوسف علیہ السلام کے پوتے ہیں۔ حالانکہ یہ واقعہ سیدنا موسیٰ علیہ السلام صاحب بنی اسرائیل ہی کا ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن و حدیث کے خلاف رائے و قیاس پر چلنے والوں پر ایسا عتاب جائز ہے۔

سیدنا خضر علیہ السلام نبی ہوں یا ولی مگر سیدنا موسیٰ علیہ السلام سے افضل نہیں ہو سکتے۔ مگر موسیٰ علیہ السلام کا یہ کہنا کہ میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، اللہ تعالیٰ کو ناگوار ہوا اور ان کا مقابلہ ایسے بندے سے کرایا جو ان سے درجہ میں کم تھے، تاکہ وہ آئندہ ایسا دعویٰ نہ کریں، موسیٰ علیہ السلام نے جب خضر علیہ السلام کو سلام کیا، تو انہوں نے وعلیکم السلام کہہ کر جواب دیا، ساتھ ہی وہ گھبرائے بھی کہ یہ سلام کرنے والے صاحب کہاں سے آ گئے۔ اس سے معلوم ہوا کہ خضر علیہ السلام کو بھی غیب کا علم نہ تھا، لہٰذا جو لوگ انبیاء و اولیاءکے لیے غیب دانی کا عقیدہ رکھتے ہیں وہ جھوٹے ہیں۔ موسیٰ علیہ السلام کا علم ظاہر شریعت تھا۔ اور خضر علیہ السلام مصالح شرعیہ کے علم کے ساتھ خاص حکموں پر مامور تھے، اسی لیے موسیٰ علیہ السلام کو ان کے کام بظاہر خلاف شریعت معلوم ہوئے حالانکہ وہ خلاف شریعت نہ تھے۔ کشتی سے ایک تختہ کا نکالنا اس مصلحت کے تحت تھا کہ پیچھے سے ایک ظالم بادشاہ کشتیوں کو بے گار میں پکڑنے کے لیے چلا آ رہا تھا، اس نے اس کشتی کو عیب دار دیکھ کر چھوڑ دیا، جب وہ گزر گیا تو خضر علیہ السلام نے پھر اسے جوڑ دیا، بچے کا قتل اس لیے کہ خضر علیہ السلام کو وحی الٰہی نے بتلا دیا تھا کہ یہ بچہ آئندہ چل کر اپنے والدین کے لیے سخت مضر ہو گا اس مصلحت کے تحت اس کا ختم کرنا ہی مناسب جانا۔ ایسا قتل شاید اس وقت کی شریعت میں جائز ہو، پھر اللہ نے اس بچے کے والدین کو نیک بچے عطا کئے اور اچھا ہو گیا۔ دیوار کو اس لیے آپ نے سیدھا کیا کہ دو یتیم بچوں کا باپ انتقال کے وقت اپنے بچوں کے لیے اس دیوار کے نیچے ایک خزانہ دفن کر گیا وہ دیوار اگر گر جاتی تو لوگ یتیموں کا خزانہ لوٹ کر لے جاتے۔ اس مصلحت کے تحت آپ نے فوراً اس دیوار کو باذن اللہ سیدھا کر دیا۔ موسیٰ اور خضر کے اس واقعہ سے بہت سے فوائد نکلتے ہیں، جن کی تفصیل نظر غائر والوں پر واضح ہو سکتی ہے۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 122   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3149  
´سورۃ الکہف سے بعض آیات کی تفسیر۔`
سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی الله عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کہتا ہے کہ بنی اسرائیل والے موسیٰ خضر والے موسیٰ علیہما السلام نہیں ہیں، ابن عباس رضی الله عنہما نے کہا: اللہ کے دشمن نے جھوٹ کہا، میں نے ابی بن کعب کو کہتے ہوئے سنا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے: موسیٰ علیہ السلام نے بنی اسرائیل میں ایک دن تقریر کی، ان سے پوچھا گیا (اس وقت) لوگوں میں سب سے زیادہ علم والا کون ہے؟ کہا: میں سب سے زیادہ علم والا ہوں، یہ بات اللہ کو ناگوار ہوئی کہ انہوں نے «اللہ اعلم» (اللہ بہتر جانتا ہے) نہیں کہا، ال۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3149]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہر ایک (صحیح سالم) کشتی کو جبراً ضبط کر لیتا تھا (الکہف: 79) (موجودہ مصاحف میں) صالحۃ کا لفظ نہیں ہے۔

2؎:
اور وہ لڑکا کافر تھا جیسا کہ قرآن میں ہے:
﴿وَأَمَّا الْغُلامُ فَكَانَ أَبَوَاهُ مُؤْمِنَيْنِ فَخَشِينَا أَن يُرْهِقَهُمَا طُغْيَانًا وَكُفْرًا﴾ (الكهف: 80) اور جہاں تک اس لڑکے کا تعلق ہے تو اُس کے ماں باپ ایمان والے تھے،
چنانچہ ہم ڈر گئے کہ ایسانہ ہو یہ لڑکا بڑا ہوکراپنے ماں باپ کو بھی شرارت وسرکشی اورکفر میں ڈھانپ دے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3149   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6165  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
اني اعلم بالخير منه:
میں خوب جانتا ہوں کہ اس سے بہتر کون ہے۔
(2)
او عند من هو:
یا اس سے زیادہ خیر کس کے پاس ہے۔
(3)
دلني عليه:
اس تک میری راہنمائی کریں،
تاکہ میں اس تک پہنچ سکوں۔
(4)
عمي عليه:
اس پر راستہ اوجھل ہو گیا اور وہ اپنے ساتھی سے الگ ہو گئے،
لیکن یہ راوی کا وہم ہے،
کیونکہ مچھلی کی گمشدگی کے وقت موسیٰ علیہ السلام پاس ہی سوئے ہوئے تھے،
لیکن اس نے بیدار کرنا مناسب نہ سمجھا۔
(5)
حلاوة القفاء:
گدی کے درمیان،
یعنی ایک طرف نہیں لیٹے تھے،
بلکہ چت لیٹے تھے۔
(6)
مجي ما جاء بك:
کسی اہم اور ضروری کام کے لیے آپ آئے ہیں یا کسی مقصد کے لیے آئے ہیں۔
(7)
انتحي عليها:
(تختہ توڑنے کے لیے)
سارا وزن اس پر ڈال دیا،
(8)
بادي الرأي:
(بلا سوچے سمجھے) (9)
ذعر عندها موسيٰ ذعرة منكرة:
انتہائی زیادہ خوف زدہ یا دہشت زدہ ہو گئے۔
(10)
ذمامة:
حياء:
ملامت اور مذمت کا خوف،
لئام،
ليئم کی جمع ہے،
کمینے اور خسیس لوگ،
کیونکہ مہمان نوازی اچھے اخلاق کا حصہ ہے،
کمینے لوگ اس سے انکار کرتے ہیں۔
(11)
طبع يوم طبع كافرا:
اس کے دل میں پہلے دن سے ہی کفر قبول کرنے کا مادہ تھا،
اس کے دل میں کافروں کی طرح بگاڑ و فساد کی محبت اور جہالت و قساوت رکھ دی گئی تھی اور والدین اس سے شفقت و پیار رکھتے تھے،
اس لیے وہ ان کے لیے کفر و طغیان کا باعث بنتا،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت بالغہ کے تحت والدین کو ان کے شر سے بچانے کے لیے خضر سے قتل کروا دیا اور اگر خضر اس حقیقت سے پردہ نہ اٹھاتے تو دوسرے امور تکوینیہ کی طرح،
ہم اس قتل کے راز سے بھی آگاہ نہ ہو سکتے،
اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے حق میں جو فیصلہ کرتا ہے،
وہ ان کے حق میں بہتر ہی ہوتا ہے،
اس لیے اللہ تعالیٰ نے والدین کو اس سے بہتر اولاد دی،
جو بقول ابن عباس رضی اللہ عنہ ایک لڑکی تھی،
جس کی پشت سے ایک نبی پیدا ہوا۔
موسیٰ اور خضر علیہما السلام کے واقعہ سے ثابت ہوتا ہے کہ انسان کو تواضع اور فروتنی اختیار کرنا چاہیے اور اپنی کسی خوبی و کمال کو کامل نہیں سمجھنا چاہیے اور علم میں اضافہ کا خواہاں رہنا چاہیے،
خواہ اس کے لیے مشقت اور تنگی ہی برداشت کرنا پڑے،
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے حصول علم کی خاطر سمندری سفر کرنے سے بھی گریز نہیں کیا اور کسی مسئلہ میں اختلاف ہو جائے تو کسی بڑے عالم کی طرف رجوع کرنا چاہیے اور علمی مسائل میں بحث و تمحیص کا مقصد حقیقت تک رسائی حاصل کرنا ہو،
محض اپنی علمیت اور بڑائی کا اظہار نہیں اور انبیاء کو انہیں باتوں کا علم حاصل ہوتا ہے،
جن کا علم اللہ تعالیٰ کی طرف سے انہیں دے دیا جاتا ہے،
حضرت خضر،
موسیٰ علیہ السلام کو اس وقت جان نہیں سکے،
جب تک انہوں نے خود،
انہیں آگاہ نہیں کر دیا اور حضرت موسیٰ علیہ السلام،
حضرت خضر کے کاموں کی حقیقت نہیں سمجھ سکتے،
اس لیے ان پر خاموش نہیں رہ سکے اور آخر کار ان سے الگ ہی ہو گئے اور اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ایک عالم،
سفر میں اپنی خدمت کے لیے،
اپنے کسی شاگرد کو ساتھ رکھ سکتا ہے اور نبی کو بھی بھوک اور تکان لاحق ہوتی ہے اور زادراہ ساتھ رکھنے کی ضرورت پیش آتی ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے،
کیا ہوا ہے،
کیا ہو گا اور کیا نہیں ہو گا اور اگر اس نے ہونا ہوتا تو کیوں کر ہوتا اور دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے،
اس کی مشیت اور ارادہ سے ہو رہا ہے اور انسان جو کچھ کرتا ہے،
اس کی عطا کردہ قدرت اور اختیار سے کرتا ہے،
کفر و ایمان،
ہدایت و ضلالت بھی اس کی عطا کردہ قدرت و اختیار اور اس کے ارادہ و مشیت کے تحت ہیں،
اگر وہ قدرت و اختیار نہ دے تو انسان کچھ بھی نہ کر سکے،
نہ نیکی،
نہ بدی،
نہ شر،
نہ خیر اور انسان کو شریعت کے ہر حکم کے سامنے سرتسلیم خم کرنا چاہیے،
اسے حکم کی حکمت و مصلحت سمجھ آئے یا نہ آئے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6165