صحيح مسلم
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ -- حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
1. باب بِرِّ الْوَالِدَيْنِ وَأَنَّهُمَا أَحَقُّ بِهِ:
باب: والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان دونوں سے کون زیادہ حقدار ہے۔
حدیث نمبر: 6501
حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ الْهَمْدَانِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ الْقَعْقَاعِ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: " يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَنْ أَحَقُّ النَّاسِ بِحُسْنِ الصُّحْبَةِ؟ قَالَ: أُمُّكَ، ثُمَّ أُمُّكَ، ثُمَّ أُمُّكَ، ثُمَّ أَبُوكَ، ثُمَّ أَدْنَاكَ أَدْنَاكَ ".
فضیل نے عمارہ بن قعقاع سے، انہوں نے ابوزرعہ سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک شخص نے پوچھا: اللہ کے رسول! لوگوں میں سے (میری طرف سے) حسن معاشرت کا سب سے زیادہ حقدار کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہاری ماں، پھر تمہارا باپ، پھر جو تمہارا زیادہ قریبی (رشتہ دار) ہو، (پھر جو اس کے بعد) تمہارا قریبی ہو۔" (اسی ترتیب سے آگے حق دار بنیں گے۔)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ایک آدمی نے پوچھا،یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !حسن رفاقت کا حقدارکون ہے؟آپ نے فرمایا:"تیری ماں پھر تیری ماں پھر تیری ماں،پھر تیرا باپ،پھر درجہ بدرجہ تیرے رشتہ دار۔"
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2706  
´زندگی میں بخیلی اور موت کے وقت فضول خرچی سے ممانعت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بتائیے کہ لوگوں میں کس کے ساتھ حسن سلوک کا حق مجھ پر زیادہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تمہارے والد کی قسم، تمہیں بتایا جائے گا، (سب سے زیادہ حقدار) تمہاری ماں ہے، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تمہاری ماں ہے، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر بھی تمہاری ماں ہے، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2706]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھانا جائز ہے۔

(2)
جواب دینے سے پہلے تمہید کے طور پر کوئی بات کہنے سے سائل جواب کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جاتا ہے، جیسے آپ کا یہ فرمانا:
میں تجھے ضرور بتاؤں گا۔

(3)
قسم صرف اللہ کی ذات کی کھانا جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔
ارشاد نبوى  ہے:
اللہ تعالی تمہیں باپوں کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے، پس جو شخص قسم کھائے، وہ اللہ کی قسم کھائے، یا خاموش رہے۔ (صحیح البخاري، الأدب، باب من لم یر إکفار من قال ذلک متأولا أوجاہلاً، حدیث: 6108)
اس لیے اس حدیث میں’باپ کی قسم‘ سے مراد’باپ کے رب کی قسم ہے۔
عربی زبان میں قرینے کی موجودگی میں الفاظ حذف کردینا عام ہے۔
  جیسے(واسئال القریة)
 بستی سے پوچھیے۔
 (یوسف12؍82)
، یعنی (واسئال اهل القریة)
 بستی کے باشندوں سے پوچھیے۔

(4)
تاہم ماں اگر کسی ایسے کام کا حکم دے جو شرعاً ممنوع یا مکروہ ہو اور باپ اس غلط کام سے منع کررے تو باپ کا حکم ماننا ضروری ہے اور یہ ماں سے حسن سلوک کے منافی نہیں۔

(5)
صحت کی حالت میں صدقہ زیادہ افضل ہے کیونکہ اس وقت دل میں مال کی محبت زیادہ شدید ہوتی ہے اور اسے خرچ کرنا اس لیے مشکل بھی محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں حالات خراب ہونے کاخطرہ محسوس ہوتا ہے جبکہ موت کے وقت یہ خیال ہوتا ہےکہ اب میں اسے استعمال تو نہیں کرسکوں گا، لہٰذا صدقہ کرکے فائدہ حاصل کرلوں۔
اس وقت دل میں مال کی محبت نہیں رہتی۔

(6)
زندگی کے آخری ایا م میں صدقہ کرنا شرعاً درست ہے۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں بھی صدقے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2706   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2706  
´زندگی میں بخیلی اور موت کے وقت فضول خرچی سے ممانعت۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بتائیے کہ لوگوں میں کس کے ساتھ حسن سلوک کا حق مجھ پر زیادہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، تمہارے والد کی قسم، تمہیں بتایا جائے گا، (سب سے زیادہ حقدار) تمہاری ماں ہے، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر تمہاری ماں ہے، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر بھی تمہاری ماں ہے، اس نے کہا: پھر کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پھر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الوصايا/حدیث: 2706]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
اپنی بات میں زور پیدا کرنے کے لیے قسم کھانا جائز ہے۔

(2)
جواب دینے سے پہلے تمہید کے طور پر کوئی بات کہنے سے سائل جواب کی طرف پوری طرح متوجہ ہو جاتا ہے، جیسے آپ کا یہ فرمانا:
میں تجھے ضرور بتاؤں گا۔

(3)
قسم صرف اللہ کی ذات کی کھانا جائز ہے جیسا کہ صحیح احادیث میں وارد ہے۔
ارشاد نبوى  ہے:
اللہ تعالی تمہیں باپوں کی قسم کھانے سے منع فرماتا ہے، پس جو شخص قسم کھائے، وہ اللہ کی قسم کھائے، یا خاموش رہے۔ (صحیح البخاري، الأدب، باب من لم یر إکفار من قال ذلک متأولا أوجاہلاً، حدیث: 6108)
اس لیے اس حدیث میں’باپ کی قسم‘ سے مراد’باپ کے رب کی قسم ہے۔
عربی زبان میں قرینے کی موجودگی میں الفاظ حذف کردینا عام ہے۔
  جیسے(واسئال القریة)
 بستی سے پوچھیے۔
 (یوسف12؍82)
، یعنی (واسئال اهل القریة)
 بستی کے باشندوں سے پوچھیے۔

(4)
تاہم ماں اگر کسی ایسے کام کا حکم دے جو شرعاً ممنوع یا مکروہ ہو اور باپ اس غلط کام سے منع کررے تو باپ کا حکم ماننا ضروری ہے اور یہ ماں سے حسن سلوک کے منافی نہیں۔

(5)
صحت کی حالت میں صدقہ زیادہ افضل ہے کیونکہ اس وقت دل میں مال کی محبت زیادہ شدید ہوتی ہے اور اسے خرچ کرنا اس لیے مشکل بھی محسوس ہوتا ہے کہ مستقبل میں حالات خراب ہونے کاخطرہ محسوس ہوتا ہے جبکہ موت کے وقت یہ خیال ہوتا ہےکہ اب میں اسے استعمال تو نہیں کرسکوں گا، لہٰذا صدقہ کرکے فائدہ حاصل کرلوں۔
اس وقت دل میں مال کی محبت نہیں رہتی۔

(6)
زندگی کے آخری ایا م میں صدقہ کرنا شرعاً درست ہے۔
حدیث کا مطلب یہ ہے کہ عام حالات میں بھی صدقے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2706   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6501  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا،
والدین کے بعد،
والدین کے بھائی بہن اور اس کے دوسرے رشتہ دار و عزیز درجہ بدرجہ اپنی اپنی حیثیت کے مطابق حسن سلوک کے حقدار ہیں۔
اس لیے ہر صاحب حق کو اس کا حق ملنا چاہیے،
تزاحم اور ٹکراؤ کی صورت میں والدین کا حق مقدم ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6501