صحيح مسلم
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ -- حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
1. باب بِرِّ الْوَالِدَيْنِ وَأَنَّهُمَا أَحَقُّ بِهِ:
باب: والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اور ان دونوں سے کون زیادہ حقدار ہے۔
حدیث نمبر: 6504
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ حَبِيبٍ . ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا يَحْيَي يَعْنِي ابْنَ سَعِيدٍ الْقَطَّانَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، وَشُعْبَةَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَبِيبٌ ، عَنْ أَبِي الْعَبَّاسِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو ، قَالَ: " جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَسْتَأْذِنُهُ فِي الْجِهَادِ، فَقَالَ: أَحَيٌّ وَالِدَاكَ، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَفِيهِمَا فَجَاهِدْ ".
وکیع نے سفیان سے اور یحییٰ بن سعید قطان نے سفیان اور شعبہ دونوں سے روایت کی، دونوں نے کہا: ہمیں حبیب نے ابوعباس سے حدیث سنائی، انہوں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جہاد کی اجازت طلب کرنے کے لیے آیا تو آپ نے فرمایا: "کیا تمہارے والدین زندہ ہیں؟" اس نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پھر ان (کی خدمت بجا لانے) میں جہاد کرو۔ (اپنی جان اور مال کو ان کی خدمت میں صرف کرو۔) "
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتےہیں،ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکرآپ سے جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کی تو آپ نے پوچھا،"کیا تیرے ماں باپ زندہ ہیں۔"اس نے کہا،جی ہاں،فرمایا:"تو پھر خوب محنت سے ان کی خدمت کر۔"
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2782  
´ماں باپ کی زندگی میں جہاد کرنے کا حکم۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا: میں آپ کے ساتھ جہاد کے ارادے سے آیا ہوں، جس سے میرا مقصد رضائے الٰہی اور آخرت کا ثواب ہے، لیکن میں اپنے والدین کو روتے ہوئے چھوڑ کر آیا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس واپس لوٹ جاؤ اور جس طرح تم نے انہیں رلایا ہے اسی طرح انہیں ہنساؤ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجهاد/حدیث: 2782]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
والدین کو پریشان اور غمگین کرنے س بچنے کی ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔

(2)
والدین کو پریشان کرنے کا کفارہ یہ ہے کہ ایسا کام کیا جائے جس سے وہ خوش ہو جائیں۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2782   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1083  
´(جہاد کے متعلق احادیث)`
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور وہ جہاد میں شرکت کی اجازت طلب کر رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تیرے والدین بقید حیات ہیں؟ وہ بولا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پس ان دونوں (کی خدمت) میں جدوجہد کرو۔ (بخاری و مسلم) مسند احمد اور ابوداؤد میں ابوسعید کی روایت بھی اسی طرح منقول ہے۔ اس میں اضافہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واپس چلے جاؤ ان سے اجازت طلب کرو۔ پھر اگر وہ دونوں تجھے اجازت دے دیں تو درست ورنہ ان کے ساتھ نیکی اور حسن سلوک کرو۔ «بلوغ المرام/حدیث: 1083»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الجهاد، بإذن الأبوين، حديث:3004، ومسلم، البر والصلة، باب برالوالدين وأيهما أحق به، حديث:2549، وحديث أبي سعيد: أخرجه أبوداود، الجهاد، حديث:2530، وأحمد:3 /75.»
تشریح:
1. اس حدیث سے والدین کی فضیلت معلوم ہوتی ہے کہ اسلام کی نظر میں جہاد جیسا فریضہ بھی والدین کی رضامندی کے بغیر ادا نہیں کیا جاسکتا۔
2.آج کا نوجوان والدین کو خاطر میں لانے کے لیے تیار ہی نہیں۔
اپنی من مانی کرتا ہے اور والدین کو اپنی رائے کا پابند کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
3.والدین کی رضامندی کو اتنی اہمیت اس لیے دی گئی ہے کہ جہاد تو فرض کفایہ ہے جبکہ والدین کی اطاعت فرض عین ہے۔
ظاہر ہے کہ فرض عین کو فرض کفایہ پر فوقیت حاصل ہوتی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1083   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1671  
´ماں باپ کو چھوڑ کر جہاد میں نکلنے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک آدمی جہاد کی اجازت طلب کرنے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ نے پوچھا: کیا تمہارے ماں باپ (زندہ) ہیں؟ اس نے کہا: ہاں، آپ نے فرمایا: ان کی خدمت کی کوشش میں لگے رہو ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الجهاد/حدیث: 1671]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
یعنی ماں باپ کی پوری پوری خدمت کرو،
کیوں کہ وہ تمہاری خدمت کے محتاج ہیں،
اسی سے تمہیں جہاد کا ثواب حاصل ہوگا،
بعض علماء کا کہنا ہے کہ اگر رضا کارانہ طورپرجہاد میں شریک ہونا چاہتا ہے تو ماں باپ کی اجازت ضروری ہے،
لیکن اگر حالات وظروف کے لحاظ سے جہاد فرض عین ہے تو ایسی صورت میں اجازت کی ضرورت نہیں،
بلکہ روکنے کے باوجود وہ جہاد میں شریک ہوگا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1671   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 2528  
´ماں باپ کی مرضی کے بغیر جہاد کرنے والے کا بیان۔`
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر کہا: میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرنے کے لیے آیا ہوں، اور میں نے اپنے ماں باپ کو روتے ہوئے چھوڑا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کے پاس واپس جاؤ، اور انہیں ہنساؤ جیسا کہ رلایا ہے ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب الجهاد /حدیث: 2528]
فوائد ومسائل:
والدین مسلمان ہوں او ر جہاد فرض نہ ہو تو ان کی اجازت حاصل کرنا ضروری ہے۔
کیونکہ دیگر مجاہدین اس کی کفایت کر سکتے ہیں۔
لیکن جب جہاد فرض ہو تو اجازت لینے کی قطعا ً کوئی ضرورت نہیں۔
تاہم ایسے حالات میں کہ والدین باوجود مسلمان ہونے کے جہاد کی شرعی اہمیت و ضرورت سے آگاہ نہ ہوں۔
یا آگاہ نہ ہونا چاہیں۔
اور بذدلی کا شکار ہوں۔
مادی خدمات کے لئے اولاد بھی موجود ہو اور پھر بھی اجازت نہ دیں تو پھر مسئلہ امیر جہاد کے سامنے پیش کیا جائےاور اس کی ہدایت پر عمل کیا جائے۔
واللہ أعلم بالصواب
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 2528   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6504  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
امام مالک،
شافعی،
احمد،
اوزاعی،
ثوری وغیرہم کا موقف اور نظریہ یہ ہے کہ جہاد میں نکلنے کے لیے والدین کی اجازت ضروری ہے،
لیکن یہ اس صورت میں ہے،
جب جہاد فرض عین نہ ہو،
لیکن اگر دشمن کی قوت و طاقت کی کثرت کے پیش نظر تمام افراد کا نکلنا ناگزیر ہو،
کسی کے لیے پیچھے رہنا جائز نہ ہو،
کیونکہ نفیر عام ہے تو پھر اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہے،
الا یہ کہ ان کی خدمت و حفاظت کرنے والا کوئی نہ ہو اور وہ خود اپنے آپ کو سنبھال نہ سکتے ہوں تو پھر بقول امام ابن حزم اس پر جہاد میں حصہ لینا بالاجماع ساقط ہو جائے گا،
حافظ ابن حجر نے،
اس حدیث سے یہ بھی استنباط کیا ہے کہ والدین کی اجازت کے بغیر اگر جہاد کے لیے نکلنا جائز نہیں ہے تو عام سفر کے لیے بالاولیٰ نکلنا جائز نہیں ہو گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6504