صحيح مسلم
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ -- حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
11. باب النَّهْيِ عَنِ الشَّحْنَاءِ وَالتَّهَاجُرِ:
باب: کینہ رکھنے کی ممانعت۔
حدیث نمبر: 6544
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " تُفْتَحُ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ يَوْمَ الِاثْنَيْنِ، وَيَوْمَ الْخَمِيسِ، فَيُغْفَرُ لِكُلِّ عَبْدٍ لَا يُشْرِكُ بِاللَّهِ شَيْئًا، إِلَّا رَجُلًا كَانَتْ بَيْنَهُ وَبَيْنَ أَخِيهِ شَحْنَاءُ، فَيُقَالُ: أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا، أَنْظِرُوا هَذَيْنِ حَتَّى يَصْطَلِحَا ".
) امام مالک بن انس نے سہیل (بن ابی صالح) سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "پیر اور جمعرات کے دن جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور ہر اس بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بناتا، اس بندے کےسوا جس کی اپنے بھائی کے ساتھ عداوت ہو، چنانچہ کہا جاتا ہے: ان دونون کو مہلت دو حتی کہ یہ صلح کر لیں، ان دونوں کو مہلت دو حتی کہ یہ صلح کر لیں۔ ان دونوں کو مہلت دو حتی کہ یہ صلح کر لیں۔" (اور صلح کے بعد ان کی بھی بخشش کر دی جائے۔)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" سوموار اورجمعرات کے روز جنت کے دروازے کھولےجاتے ہیں اور ہر اس بندے کو معاف کردیا جاتا ہے،جو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہراتا،سوائے اس بندے کے کہ اس کے اور اس کے بھائی کے درمیان کینہ اور عداوت ہے،ان کے بارےمیں کہاجاتا ہے،ان دونوں کامعاملہ مؤخر کرو،حتیٰ کہ آپس میں صلح کرلیں،ان دونوں کو مہلت دو،حتیٰ کہ باہمی صلح کرلیں،ان دونوں کو ڈھیل دو،حتیٰ کہ آپس میں صلح کرلیں۔"
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 2  
´مشرک کے لئے معافی نہیں ہے`
«. . . 443- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ((تفتح أبواب ا لجنة يوم الاثنين ويوم الخميس، فيغفر لكل عبد لا يشرك بالله شيئا إلا رجلا كانت بينه وبين أخيه شحناء، فيقال: أنظروا هذين حتى يصطلحا)). . . .»
. . . اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جنت کے دروازے پیر اور جمعرات کو کھولے جاتے ہیں پھر ہر اس (مسلمان) بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ کسی چیز میں شرک نہیں کرتا تھا سوائے اس آدمی کے جو اپنے اور اپنے بھائی کے درمیان دشمنی رکھتا ہے۔ پھر کہا جاتا ہے: ان دونوں کو پیچھے ہٹاؤ (مہلت دو) حتیٰ کہ یہ صلح کر لیں۔ . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 2]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه مسلم 2565، من حديث ما لك به]

تفقه:
➊ کسی شرعی عذر کے بغیر مسلمانوں کا آپس میں بائیکاٹ کرنا حرام ہے۔
➋ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: لوگوں کے اعمال ہر جمعے (یعنی ہر ہفتے) میں دو دفعہ (اللہ تعالی کے سامنے) پیش ہوتے ہیں: سوموار اور جمعرات کو پھر ہر مومن بندے کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے اس بندے کے جس کی اپنے بھائی سے دشمنی ہو اور کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو چھوڑ دو حتیٰ کہ صلح کریں۔ [الموطأ 909/2 ح 1752، وسنده صحيح ورواه مسلم: 6525 مرفوعاً]
➌ جنت پیدا شدہ موجود ہے اور اس کے (آٹھ) دروازے ہیں۔
➍ مشرک کی بخشش نہیں ہوتی بلکہ جنت اس کے لئے ہمیشہ حرام اور جہنم اس کا ٹھکانا ہے۔
➎ بندے اپنے باہمی حقوق کا آپس میں فیصلہ کر لیں تو الله تعالی بخش دیتا ہے۔
➏ سوموار اور جمعرات کی اہمیت بھی واضح ہو رہی ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان دو دنوں میں روزہ رکھا کرتے تھے۔ دیکھئے: [سنن الترمذي: 745 وسندہ صحیح، 747 وسندہ حسن وصحیح مسلم: 1162، دار السلام: 2750]
تنبیہ:
◄ پیر اور جمعرات کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لوگوں کے اعمال کا پیش کیا جانا کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔
➐ نیز دیکھئے: [الموطأ حديث: 4، 79، البخاري 6076، 6077، ومسلم 2559، 2560]
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 443   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1740  
´دوشنبہ (سوموار) اور جمعرات کا روزہ۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دوشنبہ اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے، تو پوچھا گیا: اللہ کے رسول! آپ دوشنبہ اور جمعرات کو روزہ رکھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دو شنبہ اور جمعرات کو اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو بخش دیتا ہے سوائے دو ایسے لوگوں کے جنہوں نے ایک دوسرے سے قطع تعلق کر رکھا ہو، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ان دونوں کو چھوڑو یہاں تک کہ باہم صلح کر لیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الصيام/حدیث: 1740]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
سوموار اور جمعرات کو نفل روزہ رکھنے کا اہتمام کرنا چا ہیے۔

(2)
روزہ ایک بڑا نیک عمل ہے جس کی برکت سے مغفرت کی زیادہ امید کی جا سکتی ہے۔

(3)
مسلمانو ں کا ایک دوسرے سے بلا وجہ ناراض رہنا بڑا گنا ہ ہے
(4)
کسی دینی وجہ سے ناراضی رکھنا اور اہل و عیال کو تنبیہ کرنے کے لئے ناراض ہو جانا اس وعید میں شامل نہیں۔

(5)
بعض لوگوں نے سوموار کے روزے سے عید میلاد کا جواز ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کیونکہ رسول اللہ ﷺ کے سوموار کے دن پیدا ہونے پر علمائے کرام کا اتفاق ہے لیکن استدالال محل نظر ہے اس لئے کہ اس دن روزہ رکھنا سنت ہے نہ کہ عید منانا اور عید روزے کے منافی ہے نیز ہفت روزہ عید پر سالانہ عید کو قیاس کرنا درست نہیں۔
کیونکہ ربیع الاول رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہر سال آتا رہا ہے لیکن رسول اللہ ﷺ نے اس مہینے میں عید نہیں منائی۔
مزید تفصیل کے لئے دیکھیے: (عید میلاد کی تار یخی و شرعی حيثیت اور مجوزین کے دلائل کا جائزہ از حا فظ صلاح الد ین یوسف رحمۃ اللہ علیہ)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1740   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 747  
´سوموار (دوشنبہ) اور جمعرات کے دن روزہ رکھنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اعمال سوموار (دوشنبہ) اور جمعرات کو اعمال (اللہ کے حضور) پیش کئے جاتے ہیں، میری خواہش ہے کہ میرا عمل اس حال میں پیش کیا جائے کہ میں روزے سے ہوں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الصيام/حدیث: 747]
اردو حاشہ:
نوٹ:
(سند میں محمد بن رفاعہ لین الحدیث راوی ہے،
لیکن متابعات و شواہد کی بنا پر یہ حدیث صحیح لغیرہ ہے)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 747   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6544  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
شحناء:
بغض و عداوت اور کینہ،
انظروا:
ان کی مہلت اور ڈھیل اور ان کے معانی کے معاملہ کو مؤخر کر دو۔
فوائد ومسائل:
پیر اور جمعرات کے روز اللہ کے حضور اعمال کی پیشی،
ایک روٹین ورک یا ضابطہ کار ہے،
وگرنہ اللہ تعالیٰ تمام اعمال سے شخصی طور پر آگاہ ہے اور جنت کے دروازے کھولنا اور اس بات کی علامت ہے کہ آج لوگوں کو معافی ملے گی اور جو انسان کفروشرک سے بچ کر ایمان رکھتا ہے،
اس کو معافی مل جاتی ہے،
لیکن باہمی عداوت اور کینہ ایسا گھناؤنا جرم ہے کہ اس کے مرتکب کے لیے معافی نہیں ہے،
جب تک اس جرم سے باز نہ آ جائے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6544