صحيح مسلم
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ -- حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
22. باب مُدَارَاةِ مَنْ يُتَّقَى فُحْشُهُ:
باب: جس کی برائی کا ڈر ہو اس کی ظاہر میں خاطرداری کرنا۔
حدیث نمبر: 6596
حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَعَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ كُلُّهُمْ، عَنْ ابْنِ عُيَيْنَةَ وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ وَهُوَ ابْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ الْمُنْكَدِرِ ، سَمِعَ عُرْوَةَ بْنَ الزُّبَيْرِ ، يَقُولُ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ : أَنَّ رَجُلًا اسْتَأْذَنَ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ائْذَنُوا لَهُ، فَلَبِئْسَ ابْنُ الْعَشِيرَةِ، أَوْ بِئْسَ رَجُلُ الْعَشِيرَةِ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْهِ أَلَانَ لَهُ الْقَوْلَ، قَالَتْ عَائِشَةُ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قُلْتَ لَهُ الَّذِي قُلْتَ، ثُمَّ أَلَنْتَ لَهُ الْقَوْلَ، قَالَ: يَا عَائِشَةُ: " إِنَّ شَرَّ النَّاسِ مَنْزِلَةً عِنْدَ اللَّهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَنْ وَدَعَهُ، أَوْ تَرَكَهُ النَّاسُ اتِّقَاءَ فُحْشِهِ ".
سفیان بن عیینہ نے ابن منکدر سے روایت کی، انہوں نے عروہ بن زبیر کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حدیث بیان کی کہ ایک شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اجازت طلب کی، آپ نے فرمایا: "اس کو اجازت دے دو، یہ یقینا اپنے قبیلے کا بُرا فرد ہے، یا فرمایا: قبیلے کا برا مرد ہے۔" جب وہ شخص اندر آیا تو آپ نے اس کے ساتھ نرمی سے گفتگو کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! آپ نے اس کے بارے میں وہ فرمایا جو فرمایا تھا، پھر آپ نے اس کے ساتھ نرمی سے بات کی؟ آپ نے فرمایا: "عائشہ! قیامت کے دن اللہ تعالیٰ رتبے کے اعتبار سے سب سے برا شخص وہ ہو گا جس سے لوگ اس کی بدزبانی سے بچنے کے لیے دور رہیں یا اس کو چھوڑ دیں۔"
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، ایک آدمی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے کی اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا:"اسے اجازت دے دو۔ یہ اپنے قبیلہ کا برافردیا برا آدمی ہے۔"تو جب وہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس سے نرمی سے گفتگو فرمائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے آپ سے عرض کیا:اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ نے اس کے بارے میں جو کچھ فرمایا آپ کو معلوم ہے، پھر آپ نے نرمی سےبات چیت کی ہے؟ آپ نے فرمایا:"اے عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا! قیامت کے روز اللہ کے ہاں سب سے بڑے مرتبہ کا حامل وہ انسان ہو گا۔جس کی بدزبانی یا بد کلامی سے بچتے ہوئے لوگ اس کو چھوڑدیں یا الگ رہیں۔"
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1996  
´حسن معاملہ کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے کی اجازت مانگی، اس وقت میں آپ کے پاس تھی، آپ نے فرمایا: یہ قوم کا برا بیٹا ہے، یا قوم کا بھائی برا ہے، پھر آپ نے اس کو اندر آنے کی اجازت دے دی اور اس سے نرم گفتگو کی، جب وہ نکل گیا تو میں نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! آپ نے تو اس کو برا کہا تھا، پھر آپ نے اس سے نرم گفتگو کی ۱؎، آپ نے فرمایا: عائشہ! لوگوں میں سب سے برا وہ ہے جس کی بد زبانی سے بچنے کے لیے لوگ اسے چھوڑ دیں۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1996]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس کے برا ہوتے ہوئے بھی اس کے مہمان ہونے پر اس کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا،
یہی باب سے مطابقت ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1996