صحيح مسلم
كِتَاب الْبِرِّ وَالصِّلَةِ وَالْآدَابِ -- حسن سلوک، صلہ رحمی اور ادب
25. باب مَنْ لَعَنَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْ سَبَّهُ أَوْ دَعَا عَلَيْهِ وَلَيْسَ هُوَ أَهْلاً لِذَلِكَ كَانَ لَهُ زَكَاةً وَأَجْرًا وَرَحْمَةً:
باب: جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت کی اور وہ لعنت کے لائق نہ تھا تو اس پر رحمت ہو گی۔
حدیث نمبر: 6627
حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَأَبُو مَعْنٍ الرَّقَاشِيُّ ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ أَبِي طَلْحَةَ ، حَدَّثَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، قَالَ: " كَانَتْ عِنْدَ أُمِّ سُلَيْمٍ يَتِيمَةٌ وَهِيَ أُمُّ أَنَسٍ، فَرَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْيَتِيمَةَ، فَقَالَ: آنْتِ هِيَهْ لَقَدْ كَبِرْتِ لَا كَبِرَ سِنُّكِ، فَرَجَعَتِ الْيَتِيمَةُ إِلَى أُمِّ سُلَيْمٍ تَبْكِي، فَقَالَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ: مَا لَكِ يَا بُنَيَّةُ؟ قَالَتْ: الْجَارِيَةُ دَعَا عَلَيَّ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ لَا يَكْبَرَ سِنِّي، فَالْآنَ لَا يَكْبَرُ سِنِّي أَبَدًا، أَوْ قَالَتْ: قَرْنِي فَخَرَجَتْ أُمُّ سُلَيْمٍ مُسْتَعْجِلَةً تَلُوثُ خِمَارَهَا حَتَّى لَقِيَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ؟ فَقَالَتْ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَدَعَوْتَ عَلَى يَتِيمَتِي، قَالَ: وَمَا ذَاكِ يَا أُمَّ سُلَيْمٍ، قَالَتْ: زَعَمَتْ أَنَّكَ دَعَوْتَ أَنْ لَا يَكْبَرَ سِنُّهَا وَلَا يَكْبَرَ قَرْنُهَا، قَالَ: فَضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: يَا أُمَّ سُلَيْمٍ أَمَا تَعْلَمِينَ أَنَّ شَرْطِي عَلَى رَبِّي أَنِّي اشْتَرَطْتُ عَلَى رَبِّي، فَقُلْتُ: إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ أَرْضَى كَمَا يَرْضَى الْبَشَرُ، وَأَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُ الْبَشَرُ، فَأَيُّمَا أَحَدٍ دَعَوْتُ عَلَيْهِ مِنْ أُمَّتِي بِدَعْوَةٍ لَيْسَ لَهَا بِأَهْلٍ أَنْ يَجْعَلَهَا لَهُ طَهُورًا، وَزَكَاةً، وَقُرْبَةً يُقَرِّبُهُ بِهَا مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ "، وقَالَ أَبُو مَعْنٍ: يُتَيِّمَةٌ بِالتَّصْغِيرِ فِي الْمَوَاضِعِ الثَّلَاثَةِ مِنَ الْحَدِيثِ.
) زہیر بن حرب اور ابومعن رقاشی نے ہمیں حدیث بیان کی۔۔ اور الفاظ زہیر کے ہیں۔۔ دونوں نے کہا: ہمیں عمر بن یونس نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں عکرمہ بن عمار نے حدیث بیان کی، کہا: ہمیں اسحق بن ابی طلحہ نے حدیث سنائی، انہوں نے کہا: مجھے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس ایک یتیم لڑکی تھی اور یہی (ام سلیم رضی اللہ عنہا) ام انس بھی کہلاتی تھیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھا تو فرمایا: "تو وہی لڑکی ہے، تو بڑی ہو گئی ہے! تیری عمر (اس تیزی سے) بڑی نہ ہو" وہ لڑکی روتی ہوئی واپس حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا کے پاس گئی، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے پوچھا: بیٹی! تجھے کیا ہوا؟ اس نے کہا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے خلاف دعا فرما دی ہے کہ میری عمر زیادہ نہ ہو، اب میری عمر کسی صورت زیادہ نہ ہو گی، یا کہا: اب میرا زمانہ ہرگز زیادہ نہیں ہو گا، حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا جلدی سے دوپٹہ لپیٹتے ہوئے نکلیں، حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا: "ام سلیم! کیا بات ہے؟" حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ کے نبی! کیا آپ نے میری (پالی ہوئی) یتیم لڑکی کے خلاف دعا کی ہے؟ آپ نے پوچھا: "یہ کیا بات ہے؟" حضرت ام سلیم رضی اللہ عنہا نے کہا: وہ کہتی ہے: آپ نے دعا فرمائی ہے کہ اس کی عمر زیادہ نہ ہو، اور اس کا زمانہ لمبا نہ ہو، (حضرت انس رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے، پھر فرمایا: "ام سلیم! کیا تمہیں معلوم نہیں کہ میں نے اپنے رب سے پختہ عہد لیا ہے، میں نے کہا: میں ایکبشر ہی ہوں، جس طرح ایک بشر خوش ہوتا ہے، میں بھی خوش ہوتا ہوں اور جس طرح بشر ناراض ہوتے ہیں میں بھی ناراض ہوتا ہوں۔ تو میری امت میں سے کوئی بھی آدمی جس کے خلاف میں نے دعا کی اور وہ اس کا مستحق نہ تھا تو اس دعا کو قیامت کے دن اس کے لیے پاکیزگی، گناہوں سے صفائی اور ایسی قربت بنا دے جس کے ذریعے سے تو اسے اپنے قریب فرما لے۔" ابو معن نے کہا: حدیث میں تینوں جگہ (یتیمہ کے بجائے) تصغیر کے ساتھ یتیمۃ (چھوٹی سی یتیم بچی کا لفظ) ہے۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا جو حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ ہیں کے پاس ایک یتیم بچی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یتیم بچی کو دیکھا تو فرمایا:"تو وہی ہے(اتنی جلد جوان ہو گئی)؟ تو بڑی ہوگئی ہے، تیری عمر بڑی نہ ہو۔" چنانچہ یتیم بچی روتی ہوئی اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آئی تو اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے پوچھا تجھے کیا ہوا؟ اے بیٹی! بچی نے کہا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے خلاف دعا کی ہے کہ میری عمر بڑی نہ ہو۔اس لیے اب کبھی میری عمر زیادہ نہیں ہو گی۔یا کہا میرا دور زیادہ نہ ہو گا، چنانچہ حضرت اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا جلدی جلدی دوپٹہ لپیٹتی ہوئی نکلیں حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا اے اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا! تمھیں کیا ہوا؟"اس نے کہا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا آپ نے میرے ہاں یتیم بچی کے خلاف دعا فرمائی ہے؟ آپ نے پوچھا۔"کیا واقعہ ہے؟ اے سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا!"اس نے عرض کیا بچی کا گمان ہے، آپ نے دعا فرمائی ہے کہ اس کی عمر نہ بڑھے اور اس کا دور یا عہد زیادہ نہ ہو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے پھر فرمایا:"اے اُم سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہا! کیا تجھے معلوم نہیں ہے، میری اپنے رب کے ساتھ شرط ہے میں نے اپنے رب سے طے کیا ہے میں نے کہا میں بشر ہی تو ہوں،جس طرح بشر راضی ہوتا ہے میں راضی ہوتا ہوں اور جس طرح بشر غصہ میں آجاتا ہے میں غصہ میں آجاتا ہوں تو جس کے خلاف بھی میں اپنی امت سے ایسی دعا کروں جس کا وہ مستحق نہیں ہے، اسے وہ اس کے لیے طہارت پاکیزگی اور ایسی قربت بنادے جس کے سبب تو اسے قیامت کے دن اپنا تقرب بخشے،"ابو معن کی روایت میں (يَتِيمُة) کا لفظ تینوں جگہ مصغر ہے یعنی (يُتَيمَة) ہے۔