صحيح مسلم
كِتَاب الْقَدَرِ -- تقدیر کا بیان
1. باب كَيْفِيَّةِ الْخَلْقِ الآدَمِيِّ فِي بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ:
باب: انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق، عمر، عمل، شقاوت و سعادت لکھے جانے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 6725
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَاللَّفْظُ لِابْنِ نُمَيْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ حُذَيْفَةَ بْنِ أَسِيدٍ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " يَدْخُلُ الْمَلَكُ عَلَى النُّطْفَةِ بَعْدَ مَا تَسْتَقِرُّ فِي الرَّحِمِ بِأَرْبَعِينَ، أَوْ خَمْسَةٍ وَأَرْبَعِينَ لَيْلَةً، فَيَقُولُ يَا رَبِّ: أَشَقِيٌّ أَوْ سَعِيدٌ؟ فَيُكْتَبَانِ، فَيَقُولُ أَيْ رَبِّ: أَذَكَرٌ، أَوْ أُنْثَى؟ فَيُكْتَبَانِ، وَيُكْتَبُ عَمَلُهُ، وَأَثَرُهُ، وَأَجَلُهُ وَرِزْقُهُ، ثُمَّ تُطْوَى الصُّحُفُ، فَلَا يُزَادُ فِيهَا وَلَا يُنْقَصُ ".
عمرو بن دینار نے ابوطفیل (عامر بن واثلہ رضی اللہ عنہ) سے، انہوں نے حذیفہ بن اسید رضی اللہ عنہ سے روایت کی جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچائی (مرفوع بیان کی)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جب نطفہ (چالیس چالیس دنوں کے دو مرحلوں کے بعد تیسرے مرحلے میں) چالیس یا پینتالیس راتیں رحم میں ٹھہرا رہتا ہے تو (اللہ کا مقرر کیا ہوا) فرشتہ اس کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے: اے رب! یہ خوش نصیب ہو گا یا بدنصیب ہو گا؟ تو دونوں (باتوں میں سے اللہ کو بتائے اس) کو لکھ لیا جاتا ہے، پھر کہتا ہے: اے رب! یہ مرد ہے یا عورت؟ پھر دونوں (میں سے جو اللہ بتائے اس) کو لکھ لیا جاتا ہے، پھر اس کا عمل، اس کے قدموں کے نشانات، اس کی مدت عمر اور اس کا رزق لکھ لیا جاتا ہے، پھر (اندراج کے) صحیفے لپیٹ دیے جاتے ہیں، پھر ان میں کوئی چیز بڑھائی جاتی ہے، نہ کم کی جاتی ہے۔"
حضرت حذیفہ ابن اسید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں،"جب نطفہ رحم میں چالیس یا پینتالیس راتیں ٹھہرارہتا ہے تو فرشتہ آتا ہے اور پوچھتا ہے اے میرے رب! یہ بد بخت ہے یا نیک بخت؟پھر ان دونوں کو لکھ دیا جاتا ہے اور وہ پوچھتا ہے اے میرے رب! مذکر ہے یا مؤنث؟اور ان کو لکھ دیا جاتا ہے اور اس کے عمل اور نتائج اور اس کی عمر اور اس کا رزق لکھ دیا جاتا ہے پھر نوشتے لپیٹ دئیے جاتے ہیں، سو ان میں نہ زیادتی ہوتی ہے اور نہ کمی۔"
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6725  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے،
مذکورہ بالا حدیث چار باتوں کو دوسرے مرحلہ میں لکھ دیا جاتا ہے،
جبکہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ کام تیسرے مرحلہ کے بعد یعنی چار ماہ بعد طے کیے جاتے ہیں،
لیکن صحیح بات یہ معلوم ہوتی ہے،
ان چیزوں کا آغاز تو دوسرے مرحلہ میں شروع ہو جاتا ہے،
لیکن تکمیل تیسرے مرحلے کے بعد ہوتی ہے،
جب انسان کے اعضاء،
ہڈیاں اور گوشت پوست پوری طرح نمایاں ہو جاتے ہیں،
اس لیے دونوں حدیثوں میں تضاد نہیں ہے،
کیونکہ حضرت حذیفہ کی حدیث میں ہے،
یہ کام چالیس یا پینتالیس دن یا راتوں کے بعد ہوتا ہے اور بعد کے لیے فوریت ضروری نہیں ہے کہ یہ فورا ہی ہو جاتا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6725