صحيح مسلم
كِتَاب الْقَدَرِ -- تقدیر کا بیان
1. باب كَيْفِيَّةِ الْخَلْقِ الآدَمِيِّ فِي بَطْنِ أُمِّهِ وَكِتَابَةِ رِزْقِهِ وَأَجَلِهِ وَعَمَلِهِ وَشَقَاوَتِهِ وَسَعَادَتِهِ:
باب: انسان کا اپنی ماں کے پیٹ میں تخلیق کی کیفیت اور اس کے رزق، عمر، عمل، شقاوت و سعادت لکھے جانے کے بیان میں۔
حدیث نمبر: 6731
حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَاللَّفْظُ لِزُهَيْرٍ، قَالَ إِسْحَاقُ: أَخْبَرَنَا، وقَالَ الْآخَرَانِ: حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ عُبَيْدَةَ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَلِيٍّ ، قَالَ: كُنَّا فِي جَنَازَةٍ فِي بَقِيعِ الْغَرْقَدِ، فَأَتَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَعَدَ وَقَعَدْنَا حَوْلَهُ وَمَعَهُ مِخْصَرَةٌ، فَنَكَّسَ فَجَعَلَ يَنْكُتُ بِمِخْصَرَتِهِ، ثُمَّ قَالَ: مَا مِنْكُمْ مِنْ أَحَدٍ مَا مِنْ نَفْسٍ مَنْفُوسَةٍ إِلَّا وَقَدْ كَتَبَ اللَّهُ مَكَانَهَا مِنَ الْجَنَّةِ وَالنَّارِ، وَإِلَّا وَقَدْ كُتِبَتْ شَقِيَّةً أَوْ سَعِيدَةً "، قَالَ: فَقَالَ رَجَلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفَلَا نَمْكُثُ عَلَى كِتَابِنَا وَنَدَعُ الْعَمَلَ؟ فَقَالَ: مَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ السَّعَادَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ، وَمَنْ كَانَ مِنْ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ فَسَيَصِيرُ إِلَى عَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ، فَقَالَ: اعْمَلُوا، فَكُلٌّ مُيَسَّرٌ أَمَّا أَهْلُ السَّعَادَةِ، فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ السَّعَادَةِ، وَأَمَّا أَهْلُ الشَّقَاوَةِ فَيُيَسَّرُونَ لِعَمَلِ أَهْلِ الشَّقَاوَةِ، ثُمَّ قَرَأَ: فَأَمَّا مَنْ أَعْطَى وَاتَّقَى {5} وَصَدَّقَ بِالْحُسْنَى {6} فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْيُسْرَى {7} وَأَمَّا مَنْ بَخِلَ وَاسْتَغْنَى {8} وَكَذَّبَ بِالْحُسْنَى {9} فَسَنُيَسِّرُهُ لِلْعُسْرَى {10} سورة الليل آية 5-10.
) جریر نے ہمیں منصور سے حدیث بیان کی۔ انہون نے سعید بن عبیدہ سے، انہوں نے ابوعبدالرحمٰن سے اور انہوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم ایک جنازے کے ساتھ بقیع غرقد میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے، ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اردگرد بیٹھ گئے۔ آپ نے اپنا سر مبارک جھکا لیا اور اپنی چھڑی سے زمین کریدنے لگے (جس طرح کہ فکر مندی کے عالم میں ہوں۔) پھر فرمایا: "تم میں سے کوئی ایک بھی نہیں، کوئی سانس لینے والا جاندار شخص نہیں، مگر اللہ تعالیٰ نے (اپنے ازلی ابدی حتمی علم کے مطابق) جنت یا جہنم میں اس کا ٹھکانا لکھ دیا ہے اور (کوئی نہیں) مگر (یہ بھی) لکھ دیا گیا ہے کہ وہ بدبخت ہے یا خوش بخت۔" کہا: تو کسی آدمی نے کہا: اللہ کے رسول! کیا ہم اپنے لکھے پر ہی نہ رہ جائیں اور عمل چھوڑ دیں؟ تو آپ نے فرمایا: "جو خوش بختوں میں سے ہو گا تو وہ خوش بختوں کے عمل کی طرف چل پڑے گا۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "عمل کرو، ہر ایک کا راستہ آسان کر دیا گیا ہے۔ جو خوش بخت ہیں ان کے لیے خوش بختوں کے اعمال کا راستہ آسان کر دیا جاتا ہے اور جو بدبخت ہیں ان کے لیے بدبختوں کے عملوں کا راستہ آسان کر دیا جاتا ہے۔" پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تلاوت کیا: "پس وہ شخص جس نے (اللہ کی راہ میں) دیا اور تقویٰ اختیار کیا اور اچھی بات کی تصدیق کر دی تو ہم اسے آسانی کی زندگی (تک پہنچنے) کے لیے سہولت عطا کریں گے اور وہ جس نے بخل کیا اور بے پروائی اختیار کی اور اچھی بات کی تکذیب کی تو ہم اسے مشکل زندگی (تک جانے) کے لیے سہولت دیں گے۔"
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم ایک جنازہ کے سلسلہ میں بقیع غرقد میں تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور بیٹھ گئے اور ہم آپ نے ارد گردبیٹھ گئے اور آپ کے پاس ایک چھڑی تھی چنانچہ آپ نے سر جھکا لیا اور اپنی چھڑی سے زمین کرید نے لگے پھر فرمایا،"تم میں سے ہر ایک شخص اور ہر جان دار، نفس کا ٹھکانا جنت اور دوزخ میں اللہ نے لکھا دیا ہے اور یہ بھی لکھ دیا گیا ہےبد بخت ہے یا نیک بخت "ایک آدمی نے پوچھا اے اللہ کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا ہم اپنے نوشتہ پر نہ ٹھہر جائیں اور عمل چھوڑدیں۔؟"تو آپ نے فرمایا:"جو اہل سعادت میں سے ہے وہ یقیناً اہل سعادت والے اعمال کی طرف رخ کرے گا اور جو اہل شقاوت میں سے ہیں وہ یقیناً اہل شقاوت کے اعمال کی طرف چلے گا۔"اور آپ نے فرمایا:"عمل کرو، ہر ایک کے لیے آسان ہوگا،پس جو کوئی اہل سعادت سے ہے تو ان کے لیے اہل سعادت والے کام آسان کردئیے جائیں گے اور رہے اہل شقاوت تو ان کے لیے اہل شقاوت والے اعمال آسان کردئیے جائیں گے۔"پھر آپ نے ان آیات کی تلاوت فرمائی،"پس جس نے اللہ کی راہ میں دیا اور حدود الٰہی کی پابندی کی اور اچھی بات (شریعت)کی تصدیق کی تو ہم اس کو چین و راحت کی زندگی یعنی جنت حاصل کرنے کی توفیق دیں گےاور پس جس نے بخل سے کام لیا اور بے نیازی اختیار کی اور اچھی بات (دعوت اسلام) کو جھٹلایا تو ہم اس کے لیے تکلیف دہ اور دشواری والی زندگی یعنی دوزخ کی طرف چلنا آسان کردیں گے۔"(سورۃ اللیل آیت نمبر5تا10)
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6731  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
بقيع الغرقد:
یہ مدینہ منورہ کا قبرستان ہے،
جسے اب جنت البقیع کہتے ہیں۔
مخصرة:
چھڑی،
نكس اور نكس،
سر جھکا لیا،
ينكت:
کریدنے لگے۔
افلا نمكت علي كتابنا:
یہ کیا ہم اپنے نوشتہ تقدیر پر بھروسہ کر کے بیٹھ نہ جائیں اور سعی و عمل چھوڑ دیں۔
اعملوافكل ميسر:
عمل کرو کیونکہ ہر ایک کو اسی کی توفیق ملتی ہے،
جس کے لیے وہ پیدا ہوا ہے،
جنت و دوزخ کا مدار عمل پر ہے،
اس لیے عملوں کے بغیر چارہ نہیں ہے اور ان کو چھوڑنا ممکن نہیں ہے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا،
اللہ کا علم چونکہ ازلی اور ابدی ہے او اسے کسی چیز کی تخلیق اور اس کے عمل سے پہلے ہی معلوم ہے کہ وہ کب پیدا ہو گا،
کیسے زندگی گزارے گا اور کیا اس کا انجام ہو گا،
اس لیے ہر شخص کا ٹھکانہ،
دوزخ ہے یا جنت ہے،
اللہ کو پہلے ہی سے معلوم ہو چکا ہے اور یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ وہ کون سے برے یا اچھے اعمال کرے گا،
یعنی اس کا جنت یا دوزخ تک پہنچنے کا راستہ بھی پہلے سے معلوم ہے اور لکھ دیا گیا ہے اور تقدیر الٰہی میں یہ طے ہو چکا ہے کہ جو جنت میں جائے گا،
وہ اپنے اپنے فلاں اعمال صالحہ کی بنا پر جنت میں جائے گا اور جو دوزخ میں جائے گا،
وہ اپنے اپنے فلاں فلاں اعمال بد کی بنا پر دوزخ میں جائے گا،
اس لیے عمل بے فائدہ اور فضول نہیں ہیں اور ان کو چھوڑنا ممکن نہیں ہے جنت اور دوزخ میں جانے کا راستہ ان اعمال کے ذریعہ طے ہو گا،
انسان اس لیے عمل نہیں کر رہا کہ وہ لکھ دئیے گئے ہیں،
بلکہ لکھے اس لیے گئے ہیں کہ اس نے وہ عمل کرنے تھے اور اس نے جیسے اور جو عمل کرنے تھے،
وہ لکھ دئیے گئے ہیں اور اللہ کا علم چونکہ ازلی اور ابدی ہے،
اس لیے وہ واقعہ اور حقیقت کے خلاف نہیں ہو سکتا،
یہ ممکن نہیں ہے کہ انسان نے اور عمل کرنے ہوں اور لکھ اور دئیے جائیں،
یا وہ اور عمل کر سکے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6731