صحيح مسلم
كِتَاب الْقَدَرِ -- تقدیر کا بیان
2. باب حِجَاجِ آدَمَ وَمُوسَى عَلَيْهِمَا السَّلاَمُ:
باب: سیدنا آدم علیہ السلام اور سیدنا موسیٰ علیہ السلام کا مباحثہ۔
حدیث نمبر: 6749
حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا الْمُقْرِئُ ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ . ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَهْلٍ التَّمِيمِيُّ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي مَرْيَمَ ، أَخْبَرَنَا نَافِعٌ يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ كِلَاهُمَا، عَنْ أَبِي هَانِئٍ ، بِهَذَا الْإِسْنَادِ مِثْلَهُ، غَيْرَ أَنَّهُمَا لَمْ يَذْكُرَا: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ.
حیوہ اور نافع بن یزید نے ابوہانی سے اسی سند کے ساتھ اسی حدیث کے مانند حدیث بیان کی مگر ان دونوں نے یہ نہیں کہا: "اور اس کا عرش پانی پر تھا۔"
امام صاحب یہی روایت دو اساتذہ کی سندوں سے ابو ہانی ہی کی سند سے بیان کرتے ہیں،لیکن اس میں اس کا ذکر نہیں ہے کہ اس کا عرش پانی پر تھا۔"
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6749  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام مخلوقات جن کو آسمان و زمین کے اندر پیدا کرنا تھا،
ان کے بارے میں ہر قسم کی تفصیلات کہ ان کی بناوٹ،
شکل و صورت،
رنگ و روغن،
ان کا مقصد،
ان کا طریق کار اور ان کا عمل،
جو اللہ کے علم ازلی میں پہلے سے معلوم تھیں،
ان کو لکھ بھی دیا گیا اور ان کو طے اور مقرر بھی کر دیا گیا اور پچاس ہزار سے مراد ایک طویل عرصہ ہے اور عربی زبان میں کسی چیز کے طے کر دینے اور معین و مقرر کر دینے کے لیے بھی کتابت کا لفظ استعمال ہو جاتا،
جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے،
كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ،
اللہ نے اپنے بارے میں یہ طے فرمایا ہے کہ وہ مخلوق سے رحمت کا برتاؤ کرے گا،
(حجۃ اللہ ج 1 ص 166)
۔
شاہ صاحب نے،
كتب کا معنی مقرر کرنا کیا ہے اور بعض روایات میں كتب کی جگہ قدر کا لفظ بھی اس معنی کا قرینہ ہے اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا،
اس وقت عرش اور پانی پیدا کیے جا چکے تھے اور اس سے مراد پچاس ہزار کی معینہ مدت بھی لی جا سکتی ہے کہ اگر ماہ و سال ہوتے تو اتنا عرصہ بنتا،
کیونکہ ماہ و سال کا آغاز تو آسمان و زمین کی تخلیق کے بعد ہوا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6749