صحيح مسلم
كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ -- ذکر الہی، دعا، توبہ، اور استغفار
4. باب كَرَاهَةِ تَمَنِّي الْمَوْتِ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ:
باب: موت کی آرزو کرنا منع ہے کسی تکلیف آنے پر۔
حدیث نمبر: 6814
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ يَعْنِي ابْنَ عُلَيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ ، عَنْ أَنَسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَتَمَنَّيَنَّ أَحَدُكُمُ الْمَوْتَ لِضُرٍّ نَزَلَ بِهِ، فَإِنْ كَانَ لَا بُدَّ مُتَمَنِّيًا، فَلْيَقُلِ اللَّهُمَّ أَحْيِنِي مَا كَانَتِ الْحَيَاةُ خَيْرًا لِي، وَتَوَفَّنِي إِذَا كَانَتِ الْوَفَاةُ خَيْرًا لِي "،
عبدالعزیز نے حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کوئی شخص کسی نقصان (مصیبت) کی وجہ سے، جو اس پر نازل ہو، موت کی تمنا نہ کرے۔ اگر اسنے لامحالہ موت مانگنی بھی ہو تو یوں کہے: اے اللہ! مجھے اس وقت تک زندہ رکھ جب تک زندگی میرے لیے بہتر ہو اور مجھے وفات دے جب موت میرے لیے بہتر ہو۔"
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" تم میں سے کوئی پیش آمدہ تکلیف کی بنا پر موت کی تمنا ہر گز نہ کرے، سوا اگر وہ کوئی ایسی دعا کے لیے مضطرہو، اس کے بغیر چارہ نہ پائے تو یوں کہے، اے اللہ! جب تک میرے لیے زندگی بہتر ہے۔ مجھے زندہ رکھ اور جب میرے لیے موت بہتر ہو تو دنیا سے مجھے اٹھالے۔"
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6814  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس قسم کی حدیثوں میں درحقیقت اس موت کی تمنا اور آرزو سے ممانعت فرمائی گئی ہے،
جو کسی دنیوی تکلیف اور پریشانی سے تنگ آ کر کی جاتی ہے،
کیونکہ یہ صبر و شکیب کی صفت کے خلاف ہے،
نیز جب تک آدمی زندہ ہے،
اس کے لیے توبہ و استغفار کر کے اپنے دامن کو صاف کرنے کا اور حسنات و طاعات کے ذریعہ اپنے ذخیرہ آخرت میں اضافہ اور اللہ تعالیٰ کا مزید تقرب حاصل کرنے کا موقع موجود ہے اور دنیوی مصائب اور مشکلات اس کے لیے کفارہ سیئات بنتی ہیں اور موت کی دعا کر کے اس موقعہ کو گنوانا ہے،
جو بندہ کے لیے خسارہ ہی خسارہ ہے،
ہاں اگر دینی طور پر فتنہ و فساد کا اندیشہ ہے اور دینی خسارے کا ڈر ہے تو پھر موت کی دعا کرنا جائز ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6814