صحيح مسلم
كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ -- ذکر الہی، دعا، توبہ، اور استغفار
5. باب مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ:
باب: جو شخص اللہ سے ملنے کی آرزو رکھتا ہے۔
حدیث نمبر: 6826
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ عَمْرٍو الْأَشْعَثِيُّ ، أَخْبَرَنَا عَبْثَرٌ ، عَنْ مُطَرِّفٍ ، عَنْ عَامِرٍ ، عَنْ شُرَيْحِ بْنِ هَانِئٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ "، قَالَ: فَأَتَيْتُ عَائِشَةَ ، فَقُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ يَذْكُرُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَدِيثًا إِنْ كَانَ كَذَلِكَ فَقَدْ هَلَكْنَا، فَقَالَتْ: إِنَّ الْهَالِكَ مَنْ هَلَكَ بِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ " وَلَيْسَ مِنَّا أَحَدٌ إِلَّا وَهُوَ يَكْرَهُ الْمَوْتَ، فَقَالَتْ: قَدْ قَالَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَيْسَ بِالَّذِي تَذْهَبُ إِلَيْهِ، وَلَكِنْ إِذَا شَخَصَ الْبَصَرُ وَحَشْرَجَ الصَّدْرُ وَاقْشَعَرَّ الْجِلْدُ وَتَشَنَّجَتِ الْأَصَابِعُ، فَعِنْدَ ذَلِكَ مَنْ أَحَبَّ لِقَاءَ اللَّهِ أَحَبَّ اللَّهُ لِقَاءَهُ، وَمَنْ كَرِهَ لِقَاءَ اللَّهِ كَرِهَ اللَّهُ لِقَاءَهُ،
عبثر نے مطرف سے، انہوں نے عامر سے، انہوں نے شریح بن ہانی سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " جو شخص اللہ سے ملاقات کو پسند کرے، اللہ اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرے، اللہ اس سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے۔ (شریح بن ہانی نے) کہا: میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس حاضر ہوا اور عرض کی: ام المومنین! میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، اگر وہ اسی طرح ہے (جس طرح وہ بیان کرتے ہیں) تو ہم ہلاک ہو گئے۔ تو انہوں (عائشہ رضی اللہ عنہا) نے فرمایا: ہلاک ہونے والا واقعی وہی ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول سے ہلاک ہوا، (بتاؤ) وہ کیا حدیث ہے؟ (میں نے عرض کی:) انہوں نے کہا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جو شخص اللہ سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملاقات کو پسند کرتا ہے اور جو شخص اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے" اور ہم میں ایسا کوئی نہیں جو موت کو ناپسند نہ کرتا ہو، تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی فرمایا تھا، لیکن (مفہوم کے اعتبار سے) جس طرف تم گئے ہو وہ بات اس طرح نہیں بلکہ (وہ اس طرح ہے کہ) جب نگاہ اوپر کی طرف اٹھ جاتی ہے اور سینے میں سانس اکھڑ رہی ہوتی ہے اور جلد پر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اور انگلیاں ٹیڑھی ہو کر اکڑ جاتی ہیں تو اس وقت جو اللہ سے ملنے کو پسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنا پسند کرتا ہے اور جو (اس وقت) اللہ سے ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"شخص اللہ سے ملنا پسندکرتا ہے،اللہ بھی اس سے ملنا پسند فرماتا اور جو اللہ کی ملاقات کو ناپسند کرتا ہے، اللہ اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔"حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے شاگرد شریح بن ہانی رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں چنانچہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوااورعرض کیا، اے اُم المومنین! میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سنی ہے اگر صورت حال یہی ہے تو ہم تباہ ہو گئے تو انھوں نے فرمایا:"اصلی تباہ ہونے والا وہ ہے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تباہ قراردیں اور وہ حدیث کیا ہے، اس نے کہا،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"جو اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے، اللہ اس کی ملاقات کو پسند کرتا ہے جو اللہ سے ملنا ناپسند کرتا ہے اللہ اس سے ملنا ناپسند کرتا ہے۔"اور ہم میں سے ہر ایک (طبعی طورپر)موت کو ناپسند کرتا ہے تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے کہا، واقعی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات فرمائی ہے، لیکن اس کا مفہوم وہ نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو۔لیکن جب آنکھیں اوپر اٹھ جائیں اور سینہ میں سانس گھٹنے لگے اور جسم کے رونگتے کھڑے ہو جائیں اور انگلیاں سکڑ جائیں (یعنی نزع کی حالت طاری ہو جائے)اس وقت جو انسان اللہ کی ملاقات کو پسند کرتا ہے، اللہ اس سے ملنا پسند کرتا ہے اور جو اللہ سے ملنا پسند نہیں کرتا، اللہ اس سے ملنا پسند نہیں کرتا۔"
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4264  
´موت کی یاد اور اس کی تیاری کا بیان۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات پسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات پسند کرتا ہے، اور جو اللہ تعالیٰ سے ملاقات ناپسند کرتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ملاقات ناپسند کرتا ہے، آپ سے عرض کیا گیا: اللہ تعالیٰ سے ملنے کو برا جاننا یہ ہے کہ موت کو برا جانے، اور ہم میں سے ہر شخص موت کو برا جانتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، بلکہ یہ موت کے وقت کا ذکر ہے، جب بندے کو اللہ تعالیٰ کی رحمت اور اس کی مغفرت کی خوشخبری دی جاتی ہے، تو وہ اس سے ملنا پسند کرتا ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4264]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
فوت ہونے والے نیک آدمی کو فرشتے خوشخبری دیتے ہیں۔
چنانچہ اسے اللہ کے پاس جانے کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔
تاکہ جلد از جلد وہ نعمتیں حاصل کرسکے جو اللہ نے پیارے بندوں کےلئے تیار کی ہیں۔

(2)
فوت ہونے والے بُرے آدمی کو فرشتوں کی خوف ناک کیفیت سے پتہ چل جاتا ہے۔
کہ وہ سزا کا مستحق ہے۔
پھر فرشتے بھی اسے یہی خبر دیتے ہیں۔
تو اسے مزید یقین ہوجاتا ہے۔
اس لئے اس کو مرنے سے خوف آتا ہے۔
اور وہ اللہ کے پاس جانا نہیں چاہتا۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4264   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1067  
´جو اللہ سے ملنا چاہتا ہے، اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے۔`
ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اللہ سے ملنا چاہتا ہے اللہ بھی اس سے ملنا چاہتا ہے، اور جو اللہ سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے اللہ بھی اس سے ملنے کو ناپسند کرتا ہے۔‏‏‏‏ تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سبھی کو موت ناپسند ہے؟ تو آپ نے فرمایا: یہ مراد نہیں ہے، بلکہ مراد یہ ہے کہ مومن کو جب اللہ کی رحمت، اس کی خوشنودی اور اس کے جنت کی بشارت دی جاتی ہے تو وہ اللہ سے ملنا چاہتا ہے اور اللہ اس سے ملنا چاہتا ہے، اور کافر کو جب اللہ کے عذاب اور اس کی غصے کی خبر دی جاتی ہے ت۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1067]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
مطلب یہ ہے کہ جان نکلنے کے وقت اور موت کے فرشتوں کے آ جانے کے وقت آدمی میں اللہ سے ملنے کی جو چاہت ہوتی ہے وہ مراد ہے نہ کہ عام حالات میں کیونکہ عام حالات میں کوئی بھی مرنے کو پسند نہیں کرتا۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1067   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6826  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے معلوم ہوا،
بعض دفعہ انسان ایک حدیث کا صحیح مفہوم نہ سمجھنے کی وجہ سے غلط فہمی میں مبتلا ہو جاتا ہے،
یا اس کو حدیث کے بارے میں تذبذب لاحق ہو جاتا ہے تو اپنے ناقص علم کی بنیاد پر کسی حدیث کا انکار کر دینا،
ایک مسلمان کا شیوہ نہیں ہے،
اس کو دوسرے اہل علم سے رابطہ قائم کر کے،
اس کا صحیح معنی و مفہوم سمجھنا چاہیے۔
اپنے آپ کو عقل کل کا مالک نہیں سمجھنا چاہیے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6826