صحيح مسلم
كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ -- ذکر الہی، دعا، توبہ، اور استغفار
13. باب اسْتِحُبَابِ خَفْضِ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ إِلَّا فِي الْمَوَاضِعِ الَّتِي وَرَدَ الشَّرْعُ بِرَفْعِهِ فِيهَا كَالتَّلْبِيَةِ وَغَيْرِهَا وَ اسْتِحُبَابِ الْإِكْثَارِ مِنْ قَوْلِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ
باب: آہستہ سے ذکر کرنا افضل ہے۔
حدیث نمبر: 6862
حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ عَاصِمٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَجْهَرُونَ بِالتَّكْبِيرِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَيُّهَا النَّاسُ ارْبَعُوا عَلَى أَنْفُسِكُمْ إِنَّكُمْ لَيْسَ تَدْعُونَ أَصَمَّ، وَلَا غَائِبًا إِنَّكُمْ تَدْعُونَ سَمِيعًا قَرِيبًا وَهُوَ مَعَكُمْ، قَالَ: وَأَنَا خَلْفَهُ وَأَنَا أَقُولُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ "، فَقَالَ: يَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ قَيْسٍ: " أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى كَنْزٍ مِنْ كُنُوزِ الْجَنَّةِ؟ "، فَقُلْتُ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " قُلْ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ "،
محمد بن فضیل اور ابومعاویہ نے عاصم سے، انہوں نے ابوعثمان سے اور انہوں نے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک سفر میں ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ لوگ بلند آواز کے ساتھ اللہ اکبر کہنے لگے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "اے لوگو! اپنی جانوں پر نرمی کرو، تم نہ کسی بہرے کو پکار رہے ہو، نہ غائب کو، تم اس کو پکار رہے ہو جو ہر وقت خوب سننے والا ہے، قریب ہے اور تمہارے ساتھ ہے۔" اس وقت میں آپ کے پیچھے تھا اور یہ کہہ رہا تھا: " لا حول ولا قوۃ الا باللہ " "گناہوں سے بچنے اور نیکی کی قوت صرف اور صرف اللہ سے ملتی ہے۔" تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "عبدالہ بن قیس! کیا میں تمہیں جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانے کا پتہ نہ بتاؤں؟" میں نے کہا: کیوں نہیں، اللہ کے رسول! آپ نے فرمایا: " لا حول ولا قوۃ الا باللہ " کہا کرو۔"
حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے،چنانچہ لوگ بلند آوازسے اللہ اکبر کہنےلگے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا،:اے لوگو!اپنے ساتھ نرمی کرو،(آواز پست کرو)تم کسی بہرے کو نہیں پکاررہے اور نہ ہی غائب کو تم سننے والے،قریبی کو،جوتمہارے ساتھ ہے،پکاررہے ہو۔"حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کہتے ہیں اور میں آپ کے پیچھے تھا اور میں یہ کلمات کہہ رہا تھا،"لاحول ولا قوة الا بالله" تو آپ نے فرمایا:"اے عبداللہ بن قیس!کیا میں تمہاری جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ کی طرف رہنمائی نہ کروں۔"میں نے عرض کیا،کیوں نہیں،ضرور بتائیں،اے اللہ کے رسول( صلی اللہ علیہ وسلم )!آپ نے فرمایا:کہو،"لاحول ولا قوة الا بالله"
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6862  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
چونکہ اللہ تعالیٰ سننے والا اور قریب ہے،
اپنے علم اور احاطہ سے ہر ایک کے ساتھ ہے،
وہ ہر ایک کے ذکر و دعا کو سنتا اور جانتا ہے۔
يَعْلَمُ السِّرَّ وَأَخْفَى وہ پوشیدہ اور پوشیدہ تر کو جانتا ہے،
اس لیے دعا اور ذکر کے لیے آواز بلند کرنے کی ضرورت نہیں ہے،
اس لیے فرمایا:
ادْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً (الاعراف: 55)
"اپنے رب کو گڑگڑا کر اور چپکے چپکے پکارو۔
"اس لیے ان مقامات کے سوا،
جہاں بلند آواز کرنے کی اجازت ہے،
آواز بلند کرنا درست نہیں ہے۔
اور "لا حول ولا قوة الا بالله" کا مطلب یہ ہے کہ کسی کام کے لیے سعی و حرکت اور اس کے کرنے کی قوت و طاقت بس اللہ ہی سے مل سکتی ہے،
کوئی بندہ خود کچھ بھی نہیں کر سکتا،
چونکہ اس کلمہ کے ذریعے انسان اپنی انانیت سے دستبردار ہو کر تفویض اور تسلیم کا اظہار کرتا ہے اور اس بات کا اعتراف کرتا ہے،
میرے بس میں کچھ بھی نہیں ہے،
نہ میں جلب منفعت کر سکتا ہوں اور نہ دفع مضرت اور حضرت ابن مسعود کے بقول نہ میں اللہ کی توفیق و مدد کے بغیر گناہ سے بچ سکتا ہوں اور نہ اس کی توفیق و اعانت کے بغیر اطاعت کی سکت و قوت رکھتا ہوں،
اس اعتراف حقیقت کی بنا پر،
آپ نے اس کلمہ کو جنت کے خزانوں میں سے ایک خزانہ قرار دیا ہے،
گویا یہ کلمہ اخلاص کے ساتھ پڑھنے کی صورت میں انسان کے لیے اجروثواب کا خزانہ جنت میں محفوظ ہو جائے گا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6862