صحيح مسلم
كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ -- ذکر الہی، دعا، توبہ، اور استغفار
16. باب فِي التَّعَوُّذِ مِنْ سُوءِ الْقَضَاءِ وَدَرَكِ الشَّقَاءِ وَغَيْرِهِ:
باب: بری قضا اور بدبختی سے پناہ مانگنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 6877
حَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، وَزُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، حَدَّثَنِي سُمَيٌّ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ : أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ " يَتَعَوَّذُ مِنْ سُوءِ الْقَضَاءِ، وَمِنْ دَرَكِ الشَّقَاءِ، وَمِنْ شَمَاتَةِ الْأَعْدَاءِ، وَمِنْ جَهْدِ الْبَلَاءِ "، قَالَ عَمْرٌ وَفِي حَدِيثِهِ: قَالَ سُفْيَانُ: أَشُكُّ أَنِّي زِدْتُ وَاحِدَةً مِنْهَا.
) عمرو ناقد اور زُہیر بن حرب نے مجھے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں سفیان بن عیینہ نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے سُمی نے ابوصالح سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسان کے حق میں برا ثابت ہونے والے فیصلے، بدبختی کے آ لینے، اپنی تکلیف پر دشمنوں کے خوش ہونے اور عاجز کر دینے والی آزمائش سے پناہ مانگا کرتے تھے۔ عمرو نے اپنی حدیث (کی سند) میں کہا: سفیان نے کہا: مجھے شک ہے کہ (شاید) میں نے ان باتوں میں سے کوئی ایک بات بڑھا دی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بری تقدیر، بد بختی کے لا حق ہونے،دشمنوں کی شماتت (خوشی و مسرت)اور بلاؤں کی سختی سے پناہ مانگتے تھے۔"عمرو اپنی حدیث میں کہتے ہیں سفیان نے بتایا مجھے شک ہے، میں نےان میں ایک کا اضافہ کیا ہے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6877  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث میں بظاہر چار چیزوں سے پناہ طلب کی گئی ہے،
لیکن در حقیقت ان چار کے ضمن میں دنیا و آخرت کی ہر برائی و تکلیف اور پریشانی سے پناہ مانگی ہے،
سب سے پہلے سوء القضاء ہے،
اس میں نفس،
مال،
اولاد،
اہل،
دنیا اور آخرت کی ہر تکلیف اور پریشانی آگئی،
اس طرح بدبختی کا لا حق ہونا،
دَرَكِ الشِقاء میں ہر قسم اور ہر نوع کی بدبختی آگئی تو جس کو بری تقدیر اور بدبختی سے اللہ تعالیٰ کی پناہ اور حفاظت میسر آگئی،
اسے سب کچھ مل گیا،
وہ کسی چیز سے بھی محروم نہ رہا،
دنیا اور آخرت کی ہر چیز اس میں داخل ہے اور دشمنوں کو فرحت و مسرت،
انسان کی کسی ناکامی اور مصیبت میں مبتلا ہونے پر ہوتی ہے اور دشمنوں کی شماتت اور طعنہ زنی انسان کے لیے بڑی روحانی اور ذہنی تکلیف کا باعث بنتی ہے،
اس لیے اس کو الگ بیان کیا،
حالانکہ یہ پہلی دونو چیزوں کے اندر موجود ہے،
اس طرح جهد البلاء کسی مصیبت کی مشقت اور سختی اور بلاہر اس حالت کا نام ہے،
جو انسان کے لیے باعث تکلیف ہو اور پریشانی کا سبب بنے،
جس میں اس کا امتحان و آزمائش ہو اور یہ دنیوی بھی ہو سکتی ہے اور دینی بھی،
روحانی بھی ہو سکتی ہے اور جسمانی بھی،
انفرادی و شخصی بھی ہو سکتی ہے اور اجتماعی بھی،
اس طرح اس ایک ہی لفظ میں ہر قسم کے مصائب و تکالیف اور آفات و مشکلات آجاتی ہیں،
اس روایت میں سفیان نے شماتة الاعداء کا اضافہ کیا ہے،
لیکن یہ دوسری روایات میں موجود ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6877