صحيح مسلم
كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ -- ذکر الہی، دعا، توبہ، اور استغفار
18. باب فِي الْأٓدْعِيَةِ
باب: دعاؤں کا بیان۔
حدیث نمبر: 6903
حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ دِينَارٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو قَطَنٍ عَمْرُو بْنُ الْهَيْثَمِ الْقُطَعِيُّ ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي سَلَمَةَ الْمَاجِشُونِ ، عَنْ قُدَامَةَ بْنِ مُوسَى ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ السَّمَّانِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " اللَّهُمَّ أَصْلِحْ لِي دِينِي الَّذِي هُوَ عِصْمَةُ أَمْرِي، وَأَصْلِحْ لِي دُنْيَايَ الَّتِي فِيهَا مَعَاشِي، وَأَصْلِحْ لِي آخِرَتِي الَّتِي فِيهَا مَعَادِي وَاجْعَلِ الْحَيَاةَ زِيَادَةً لِي فِي كُلِّ خَيْرٍ، وَاجْعَلِ الْمَوْتَ رَاحَةً لِي مِنْ كُلِّ شَرٍّ ".
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: "اے اللہ! میرے دین کو درست کر دے، جو میرے (دین و دنیا کے) ہر کام کے تحفظ کا ذریعہ ہے اور میری دنیا کو درست کر دے جس میں میری گزران ہے اور میری آخرت کو درست کر دے جس میں میرا (اپنی منزل کی طرف) لوٹنا ہے اور میری زندگی کو میرے لیے ہر بھلائی میں اضافے کا سبب بنا دے اور میری وفات کو میرے لیے ہر شر سے راحت بنا دے۔"
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرمایا کرتے تھے۔"اے اللہ! میری دینی حالت درست فرمادے جس پر میری خیریت اور میرے تمام امور کی سلامتی کا مدار ہے اور میری دنیا بھی درست فرمادے۔ جس میں مجھے اپنی زندگی گزارنا ہے اور میری آخرت درست فر دے جہاں مجھے لوٹ کر جانا ہے اور میری زندگی کو میرے لیے ہر خیراور بھلائی میں اضا فہ اور زیادتی کا ذریعہ بنا دے اور موت کو میرے لیے ہر شرومصیبت سے راحت اور حفاظت کا وسیلہ بنا دے۔
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1354  
´ذکر اور دعا کا بیان`
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرمایا کرتے تھے «اللهم اغفر لي خطيئتي وجهلي وإسرافي في أمري وما أنت أعلم به مني اللهم اغفر لي جدي وهزلي وخطئي وعمدي وكل ذلك عندي اللهم اغفر لي ما قدمت وما أخرت وما أسررت وما أعلنت وما أنت أعلم به مني أنت المقدم وأنت المؤخر وأنت على كل شيء قدير» ‏‏‏‏ الٰہی! میری خطا معاف فرما دے۔ نیز میری نادانی و جہالت کے کاموں کو بخش دے۔ میرے کام میں مجھ سے جو زیادتیاں سرزد ہوئیں ان کو بھی اور جو کچھ میرے بارے میں تیرے علم میں ہے ان سب کو بھی معاف فرما دے۔ اے اللہ! مجھ سے ارادۃ یا غیر ارادی طور پر جو کچھ صادر ہوا اس کی مغفرت فرما دے۔ خواہ وہ میرے لغزش ہو یا ارادے سے ہو یہ سب میرے ہی جانب سے ہوا ہے۔ اے اللہ! جو کچھ میں کر چکا ہوں یا جو آئندہ کروں گا اور جو میرا پوشیدہ ہے یا جو مجھ سے ظاہر ہوا ہے اور جو کچھ بھی میرے متعلق تیرے علم میں ہے وہ سب بخش دے۔ تو ہی پہلے ہے اور تو ہی بعد میں اور تو ہی ہر شے پر قدرت رکھنے والا ہے۔ (بخاری و مسلم)۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) «بلوغ المرام/حدیث: 1354»
تخریج:
«أخرجه البخاري، الدعوات، باب قول النبي صلي الله عليه وسلم: ((اللّٰهم! اغفرلي...))، حديث:6398، ومسلم، الذكر والدعاء، باب التعوذ من شر ما عمل...، حديث:2719.»
تشریح:
1.اس قسم کی جتنی دعائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہیں یہ آپ نے امتثال امر کے لیے مانگی ہیں کیونکہ آپ تو معصوم عن الخطا تھے‘ یا امت کو تعلیم دینے کی غرض سے مانگی ہیں۔
2.بعض روایات میں ہے کہ یہ دعا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تشہد کے آخر میں پڑھتے اور بعض میں ہے کہ سلام پھیرنے کے بعد۔
عین ممکن ہے کہ دونوں طرح آپ نے یہ دعا پڑھی ہو‘ کبھی سلام سے پہلے کبھی سلام کے بعد۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1354   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 6903  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
یہ ایک انتہائی جامع دعا ہے،
دراصل دین ہی وہ چیز ہے کہ اگر وہ درست و سلامت ہے تو اللہ کے غضب و ناراضی سے محفوظ ہوکر اس کے لطف و کرم کا مستحق قرار پاتا ہے اور اس کے جان و مال اور عزت و آبرو کو قانونی طور پر تحفظ دیتا ہے اور دین کی درستی کا مطلب یہ ہے کہ انسان کو ایمان و یقین حاصل ہو،
اس کے عقائد نظریات اور افکارو جذبات صحیح ہوں،
اس کے اخلاق اور اعمال اور سیرت و کردار درست ہوں اور دنیا کی درستی کا مطلب یہ ہے کہ اس کے رزق اور معاش کی ضرورتیں حلال اور جائز راستوں سے پوری ہوں،
تاکہ اس کے دین کے اندر خلل اور خرابی درنہ آئے اور جب انسان کا دین اور دنیا دونوں درست ہوں گے تو اس کا لازمی نتیجہ آخرت جو اصل ٹھکانا اور دائمی زندگی ہے،
کی صلاح اور فلاح ہے،
لیکن دین و دنیا کی اچھی حالت کے باوجود،
انسان کو آخرت کے بارے میں مطمئن اور بے فکر نہیں ہونا چاہیے،
اس لیے اس کی صلاح و فلاح کا بھی خواستگار ہونا چاہیےاور ہر آدمی کو اس دنیا میں اپنی زندگی کا وقفہ پورا کر کے مرنا ہے اور اللہ کی دی ہوئی عمر سے آدمی نیک کمائی بھی کر سکتا ہے اور برائی و بدی بھی کما سکتا ہے،
یعنی وہ اس کی سعادت و خوش بختی میں اضافہ اور ترقی کا وسیلہ بھی بن سکتی ہے اور شقاوت و بد بختی میں اضافہ اور زیادتی کا باعث بنی اور سب کچھ اللہ کے ہاتھ میں ہے،
اس لیے دین و دنیا اور آخرت کی صلاح فلاح کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے یہ دعا بھی کرتے رہنا چاہیے کہ اے اللہ:
میری زندگی کو میرے لیے خیرو سعادت میں اضافہ اور ترقی کا سبب بنا اور میری موت کو شرور وفتن سے راحت اور آرام کا ذریعہ بنا،
اس طرح اس دعا میں دین و دنیا اور آخرت کی ہر بھلائی کا سوال ہے اور ان کے ہر شر اور برائی سے تحفظ اور بچاؤ کی درخواست ہے اور یہ دعا دریا بکوزہ کی بہترین مثال ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 6903