صحيح مسلم
كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ -- ذکر الہی، دعا، توبہ، اور استغفار
22. باب فَضْلِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ:
باب: سبحان اللہ وبحمدہ کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6925
حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا حَبَّانُ بْنُ هِلَالٍ ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الْجِسْرِيِّ ، عَنْ ابْنِ الصَّامِتِ ، عَنْ أَبِي ذَرٍّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: سُئِلَ أَيُّ الْكَلَامِ أَفْضَلُ؟، قَالَ: " مَا اصْطَفَى اللَّهُ لِمَلَائِكَتِهِ أَوْ لِعِبَادِهِ سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ ".
وہیب نے کہا: ہمیں سعید جریری نے ابو عبداللہ جسری سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابن صامت سے اور انہوں نے حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا: (اللہ کے ذکر کے لیے) کون سا کلمہ افضل ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جسے اللہ نے اپنے فرشتوں کے لیے یا (ان سمیت) اپنے تمام بندوں کے لیے منتخب فرمایا ہے: سبحان اللہ وبحمدہ "میں (ہر نعمت کے لیے) اللہ کی حمد کے ساتھ ہر ناشایان چیز سے اس کی پاکیزگی بیان کرتا ہوں۔"
حضرت ابو ذر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا،کون سا کلام افضل ہے؟ آپ نے فرمایا:" وہ کلام جو اللہ تعالیٰ نے اپنے فرشتوں یا بندوں کے لیے منتخب فرمایا ہے۔ یعنی "سبحان اللہ وبحمدہ"
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3593  
´اللہ کے نزدیک سب سے محبوب اور پسندیدہ کلام کون سا ہے؟`
ابوذر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی عیادت کی (یہاں راوی کو شبہ ہو گیا) یا انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عیادت کی، تو انہوں نے عرض کیا: میرے ماں باپ آپ پر قربان، اے اللہ کے رسول! کون سا کلام اللہ کو زیادہ پسند ہے؟ آپ نے فرمایا: وہ کلام جو اللہ نے اپنے فرشتوں کے لیے منتخب فرمایا ہے (اور وہ یہ ہے) «سبحان ربي وبحمده سبحان ربي وبحمده» میرا رب پاک ہے اور تعریف ہے اسی کے لیے، میرا رب پاک ہے اور ہر طرح کی حمد اسی کے لیے زیبا ہے۔‏‏‏‏ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3593]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
میرا رب پاک ہے اور تعریف ہے اسی کے لیے،
میرا رب پاک ہے اور ہر طرح کی حمد اسی کے لیے زیبا ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3593