صحيح مسلم
كِتَاب الذِّكْرِ وَالدُّعَاءِ وَالتَّوْبَةِ وَالِاسْتِغْفَارِ -- ذکر الہی، دعا، توبہ، اور استغفار
23. باب فَضْلِ الدُّعَاءِ لِلْمُسْلِمِينَ بِظَهْرِ الْغَيْبِ:
باب: مسلمانوں کے پس پشت دعا کرنے کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 6929
حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ أَبِي سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ ، عَنْ صَفْوَانَ وَهُوَ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ ، وَكَانَتْ تَحْتَهُ الدَّرْدَاءُ، قَالَ: قَدِمْتُ الشَّامَ، فَأَتَيْتُ أَبَا الدَّرْدَاءِ فِي مَنْزِلِهِ فَلَمْ أَجِدْهُ، وَوَجَدْتُ أُمَّ الدَّرْدَاءِ ، فَقَالَتْ: أَتُرِيدُ الْحَجَّ الْعَامَ؟، فَقُلْتُ: نَعَمْ، قَالَتْ: فَادْعُ اللَّهَ لَنَا بِخَيْرٍ، فَإِنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ يَقُولُ:" دَعْوَةُ الْمَرْءِ الْمُسْلِمِ لِأَخِيهِ بِظَهْرِ الْغَيْبِ مُسْتَجَابَةٌ عِنْدَ رَأْسِهِ مَلَكٌ مُوَكَّلٌ كُلَّمَا دَعَا لِأَخِيهِ بِخَيْرٍ، قَالَ الْمَلَكُ الْمُوَكَّلُ بِهِ: آمِينَ وَلَكَ بِمِثْلٍ"،
عیسیٰ بن یونس نے کہا: ہمیں عبدالملک بن ابی سلیمان نے ابوزبیر سے حدیث بیان کی، انہوں نے عبداللہ بن صفوان کے بیٹے صفوان سے روایت کی، (حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کی بیٹی) درداء، ان (صفوان) کی زوجیت میں تھی، وہ کہتے ہیں: اور میں شام آیا تو حضرت ابودرداء رضی اللہ عنہ کے ہاں ان کے گھر گیا، وہ نہیں ملے، میں حضرت ام درداء رضی اللہ عنہا سے ملا تو انہوں نے کہا: کیا تم اس سال حج کا ارادہ رکھتے ہو؟ میں نے کہا: جی ہاں۔ انہوں نے کہا: ہمارے لیے خیر کی دعا کرنا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: "مسلمان کی اپنے بھائی کے لیے اس کی پیٹھ پیچھے کی گئی دعا مستجاب ہوتی ہے، اس کے سر کے قریب ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے، وہ جب بھی اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو مقرر کیا ہوا فرشتہ اس پر کہتا ہے: آمین، اور تمہیں بھی اسی کے مانند عطا ہو۔"
صفوان یعنی عبد اللہ بن صفوان کے بیٹے اُم درداء جن کی بیوی تھی، کہتے ہیں میں شام (اپنے سسرال) آیا چنانچہ ابو درداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ان کے گھر گیا وہ نہ ملے اور مجھے اُم درداء مل گئیں،انھوں نے پوچھا اس سال تمھارا حج کرنے کا ارادہ ہے؟میں نے کہا جی ہاں انھوں نے کہا ہمارے لیے بھی اللہ سے خیر مانگنا کیونکہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:"انسان کی اپنے بھائی کے لیے پس پشت دعا قبول ہوتی ہے، اس کے سرہانے ایک فرشتہ مقرر ہے، جب بھی وہ اپنے بھائی کے لیے خیر مانگتا ہے اس پر مقرر فرشتہ کہتا ہے، آمین اور تجھے بھی اس کے مثل حاصل ہو۔"
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2895  
´حاجی کی دعا کی فضیلت۔`
صفوان بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ان کی زوجیت میں ابوالدرداء رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں، وہ ان کے پاس گئے، وہاں ام الدرداء یعنی ساس کو پایا، ابو الدرداء کو نہیں، ام الدرداء نے ان سے پوچھا: کیا تمہارا امسال حج کا ارادہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا: ہاں، تو انہوں نے کہا: ہمارے لیے اللہ تعالیٰ سے خیر کی دعا کرنا، اس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: آدمی کی وہ دعا جو وہ اپنے بھائی کے لیے اس کے غائبانے میں کرتا ہے قبول کی جاتی ہے، اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ ہوتا ہے، جو اس کی دعا پر آمین کہتا ہے، جب وہ اس کے لیے خیر کی دعا کرتا ہے تو وہ ا۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 2895]
اردو حاشہ:
فوائد ومسائل:

(1)
حج وعمرہ کے لیے جانے والوں سے دعا کی درخواست کرنی چاہیے۔

(2)
افضل مقامات پر دعا کا اہتمام کرنا چاہیے۔

(3)
کسی کی عدم موجودگی میں اس کے لیے دعا کرنا بہت ثواب کا کام ہے اور اللہ کی رحمت و برکت کا باعث ہے۔

(4)
  فرشتوں کا دعا کرنا قبولیت کا اشارہ ہے کیونکہ فرشتے اللہ کے حکم سے ہی دعا کرتے ہیں۔

(5)
افضل شخص اپنے سے کم درجے کے آدمی سے دعا کی درخواست کر سکتا ہے۔

(6)
اپنے سے افضل آدمی کے حق میں دعاکرنا درست ہے-
(7)
جن اوقات ومقامات میں دعا کی قبولیت کی زیادہ امید ہے ان میں اپنے بزرگوں ے لیے دوستوں اور عزیزوں کے لیے دعا کرنی چاہیے اگرچہ انہوں نے دعا کرنے کو نہ بھی کہا ہو۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 2895   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1534  
´اپنے مسلمان بھائی کے لیے غائبانہ دعا کرنے کا بیان۔`
ام الدرادء رضی اللہ عنہا کہتی ہیں مجھ سے میرے شوہر ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: جب کوئی اپنے بھائی کے لیے غائبانے (غائبانہ) میں دعا کرتا ہے تو فرشتے آمین کہتے ہیں اور کہتے ہیں: تیرے لیے بھی اسی جیسا ہو۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1534]
1534. اردو حاشیہ:
➊ حضرت ابودرداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دو بیویاں تھیں۔ اور دونوں کی کنیت ام درداء تھی۔ بڑی صحابیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں ان کا نام خیرہ ہے اور جن کا اس سند میں ذکر ہے۔ وہ تابعیہ ہیں ان کا نام ہجمیہ یا جہیمہ یا جمانہ وارد ہے۔ رحمہا اللہ تعالیٰ۔
➋ اس میں ترغیب ہے کہ انسان اپنے قریبی اور بعیدی تمام عزیزوں کو بلکہ عام مسلمانوں کی بھی اپنی دعائوں میں شامل رکھا کرے تاکہ فرشتے اس کے لئے دُعا کریں۔ اور فرشتوں کی دُعا (ان شاء اللہ) قبولیت کے لئے زیادہ مدد گار ہوگی۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1534