صحيح مسلم
كِتَاب الرِّقَاقِ -- کتاب الرقاق
25. باب بَيَانِ أَنَّهُ يُسْتَجَابُ لِلدَّاعِي مَا لَمْ يَعْجَلْ فَيَقُولُ دَعَوْتُ فَلَمْ يُسْتَجَبْ لِي:
باب: جب تک قبولیت کی جلدی نہ کرے دعا قبول ہوتی ہے۔
حدیث نمبر: 6935
حَدَّثَنِي عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ شُعَيْبِ بْنِ لَيْثٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ جَدِّي ، حَدَّثَنِي عُقَيْلُ بْنُ خَالِدٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَنَّهُ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو عُبَيْدٍ مَوْلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَكَانَ مِنَ الْقُرَّاءِ وَأَهْلِ الْفِقْهِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُسْتَجَابُ لِأَحَدِكُمْ مَا لَمْ يَعْجَلْ، فَيَقُولُ: قَدْ دَعَوْتُ رَبِّي فَلَمْ يَسْتَجِبْ لِي ".
عقیل بن خالد نے ابن شہاب سے روایت کی، انہوں نے کہا: مجھے عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابوعبید نے حدیث بیان کی۔۔ اور وہ قراء اور اہل فقہ میں سے ہیں۔۔ انہوں نے کہا: میں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا، وہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم میں سے کسی بھی شخص کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک وہ جلد بازی نہ کرے اور یہ (نہ) کہے: میں نے اپنے رب سے دعا کی تو اس نے مجھے میری دعا کا جواب نہیں دیا (میری دعا قبول نہیں کی۔) "
عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آزاد کردہ غلام ابو عبید جو قراء اور اہل فقہ میں شمار ہوتے تھے بیان کرتے ہیں، میں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ کہتے ہوئے سنا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"تم میں سے کسی شخص کی دعا اس وقت تک قبول ہوتی ہے جب تک جلد بازی کرتے ہوئے یہ نہ کہے میں نے اپنے رب سے دعا کی تھی مگر وہ قبول ہی نہیں ہوئی۔"
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 448  
´صرف اللہ ہی سے دعا مانگی جائے `
«. . . عن ابى هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: يستجاب لاحدكم ما لم يعجل فيقول: قد دعوت فلم يستجب لي . . .»
. . . سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے جب تک جلد بازی نہ کرے، یعنی یہ نہ کہے کہ میں نے دعا کی ہے لیکن قبول نہیں ہوئی . . . [موطا امام مالك رواية ابن القاسم: 448]

تخریج الحدیث:
[وأخرجه البخاري 6340، ومسلم 2735، من حديث مالك به]

تفقه
① اس حدیث کی شرح میں حافظ ابن عبدالبر فرماتے ہیں:
اس حدیث میں دلیل ہے کہ آیت «اُدعُوْني استجب لكم» مجھ سے دعا مانگو میں تمہاری دعا قبول کروں گا، اپنے عموم پر نہیں ہے، اس کی تخصیص کی گئی ہے۔‏‏‏‏ [التمهيد 296/10]
حافظ ابن عبدالبر نے سورۃ الانعام کی آیت [41] «فَيَكْشِفُ مَا تَدْعُوْنَ إِلَيْهِ إِنْ شَاءَ» پس تم (مصیبتیں ٹالنے کے لئے) جو دعائیں کرتے ہو تو وہ (اللہ) اگر چاہے تو مصیبتیں دور کر دیتا ہے بھی بطور دلیل پیش کی ہے۔
② دعا مانگنے کے بہت سے ارکان و آداب ہیں مثلاً:
➊ صرف اللہ ہی سے دعا مانگی جائے۔
➋ غیر اللہ سے دعا نہ مانگی جائے۔
➌ دل میں دعا کی مقبولیت کا یقین ہو۔
➍ دعا مانگتے وقت دل و دماغ غافل نہ ہوں بلکہ آدمی پوری طرح اپنے رب کی طرف متوجہ ہو۔
➎ کتاب و سنت کی مکمل اتباع ہو اور ہر قسم کی بدعت سے کلی اجتناب ہو۔ وغیرہ
③ نیز دیکھئے: [ح 336]
④ مشہور تابعی امام زید بن اسلم رحمہ الله فرماتے تھے، جو شخص بھی دعا کرتا ہے تو اس کی تین حالتیں ہوتی ہیں:
➊ یا تو اس کی دعا (فوراً) قبول ہو جاتی ہے۔ ➋ یا مؤخر (لیٹ) کر دی جاتی ہے۔ ➌ یا اس (کے گناہوں) کا کفارہ بن جاتی ہے۔ [الموطأ رواية يحييٰ 1/217 ح505 وسنده صحيح]
⑤ مشہور تابعی امام سعید بن المسیب رحمہ الله فرمایا کرتے تھے کہ (مرنے والا) آدمی اپنے (مرنے کے) بعد اپنی اولاد کی دعا کی وجہ سے آسمانوں کی بلندیوں جتنا اٹھایا جاتا ہے یعنی اس کے درجے بہت بلند ہوتے ہیں۔ [المؤطآ رواية يحيٰ 217/1 ح 507 و سنده صحيح]
⑥ اللہ کی رحمت سے کبھی ناامید نہیں ہونا چاہئے۔
⑦ یہ شکوہ نہیں کرنا چاہئیے کہ میں نے بہت دعا کی لیکن قبول نہیں ہوئی۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 74   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3853  
´دعا قبول ہوتی ہے بشرطیکہ جلدی نہ کرے۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول ہوتی ہے، بشرطیکہ وہ جلدی نہ کرے، عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! جلدی کا کیا مطلب ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ یوں کہتا ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی لیکن اللہ تعالیٰ نے میری دعا قبول نہ کی ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3853]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
دعا کی قبولیت میں تاخیر ہو تو دعا کرتےرہنا چاہیے۔
ممکن ہے اس تاخیر میں بندے کے لیے بہتری ہو۔

(2)
دعا مانگنا بہت بڑی نیکی اور عبادت ہے، لہٰذا اگر اللہ تعالیٰ کسی حکمت کی بنا پر بندے کو اس کی مطلوبہ چیز نہ دے تو بار بار دعا کرنے سےدعا کا ثواب بڑھتا چلا جاتا ہے اور یہ خود ایک انعام ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3853   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3387  
´دعا کی قبولیت میں جلد بازی نہ کرنے کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر کسی کی دعا قبول کی جاتی ہے، جب تک کہ وہ جلدی نہ مچائے (جلدی یہ ہے کہ) وہ کہنے لگتا ہے: میں نے دعا کی مگر وہ قبول نہ ہوئی ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الدعوات/حدیث: 3387]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس سے معلوم ہوا کہ دعا کرتے ہوئے انسان یہ کبھی نہ سوچے کہ دعاء مانگتے ہوئے اتنا عرصہ گذر گیا اور دعا قبول نہیں ہوئی،
بلکہ اسے مسلسل دعاء مانگتے رہنا چاہیے،
کیوں کہ اس تاخیر میں بھی کوئی مصلحت ہے جو صرف اللہ کو معلوم ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3387   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1484  
´دعا کا بیان۔`
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے ہر ایک کی دعا قبول کی جاتی ہے جب تک وہ جلد بازی سے کام نہیں لیتا اور یہ کہنے نہیں لگتا کہ میں نے تو دعا مانگی لیکن میری دعا قبول ہی نہیں ہوئی ۱؎۔‏‏‏‏ [سنن ابي داود/كتاب تفريع أبواب الوتر /حدیث: 1484]
1484. اردو حاشیہ: یعنی تاخیر سے بے چین ہوجائے۔ یا ویسے ہی مایوسی کا اظہار کرنے لگے۔ اور یہ دونوں ہی صورتیں مذموم ہیں۔ خیال رہے کہ قبولیت کے لئے ایک وقت مقرر ہے۔ لہذا بندے کو ہمیشہ مانگتے رہنا چاہیے۔ بے چین نہیں ہونا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام کی فرعون کے لئے بددعا چالیس سال بعد قبول ہوئی تھی۔ اور مایوسی(قنوط ویاس) کافروں کی صفت ہے۔ نیز قبولیت دعا کی کئی صورتیں ہوتی ہیں۔
➊ عین مطلوب کا بروقت مل جانا۔
➋ تاخیر سے ملنا۔جس میں کوئی نہ کوئی حکمت پوشیدہ ہوتی ہے۔
➌ بعض اوقات عین مطلوب تو نہیں دیا جاتا مگر اس کے بدلے کوئی اور شر دور کیا جاتا ہے۔ یا فائدہ پہنچا دیا جاتا ہے۔
➍ یا اس کی دعا کو آخرت کےلئے زخیرہ کردیا جاتا ہے۔جب کہ انسان از حد محتاج ہوگا۔ (عون المعبود) کبھی ایسے بھی ہوتا ہے کہ ایک نافرمان اور عاصی قسم کا آدمی دعا کرتا ہے تو اس کا مطلوب اسے بڑی جلدی مل جاتا ہے۔مگر صالح انسان مانگتا رہتا ہے۔ اور اسے نہیں دیا جاتا۔ اس کی حقیقی حکمت تو اللہ ہی جانےمگر بعض بزرگوں کے چونکہ دست دعا بلند کرنا اور اے اللہ!اے اللہ! پکارنا بذاتہ عبادت اور محبوب عمل ہے۔اور اللہ عزوجل کو اچھا لگتا ہے۔کہ یہ بندہ اس کی چو ھٹ پر بیٹھا رہے۔اس لئے اس کا مطلوب اس کو نہیں دیا جاتا۔بلکہ اس کے درجات بلند کیے جاتے اور بعض دوسری نعمتیں دی جاتی ہیں۔ جب کہ دوسرا عاصی انسان اللہ کا مبغوض ہوتا ہے۔اور اللہ کو اس کے دربار میں حاضری پسند نہیں ہوتی۔تو جونہی وہ کوئی طلب پیش کرتا ہے۔ تو اللہ کی مشیت ہوتی ہے۔تو فورا ً اسے دے دی جاتی ہے۔نتیجتاً وہ اپنا مطلوب پاکر پھر سے اللہ سے غافل ہوجاتا ہے۔اسی طرح سے وہ تقرب الی اللہ اور اجر وثواب سے محروم کردیا جاتا ہے۔واللہ اعلم بالصواب۔ونسال اللہ العافیۃ۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 1484