صحيح مسلم
كِتَاب التَّوْبَةِ -- توبہ کا بیان
3. باب فَضْلِ دَوَامِ الذِّكْرِ وَالْفِكْرِ فِي أُمُورِ الآخِرَةِ وَالْمُرَاقَبَةِ وَجَوَازِ تَرْكِ ذَلِكَ فِي بَعْضِ الأَوْقَاتِ وَالاِشْتِغَالِ بِالدُّنْيَا:
باب: ذکر کے دوام اور امور آخرت میں غور و فکر کی فضیلت، اور بعض اوقات اس کو چھوڑنے، اور دنیا کے ساتھ مشغول ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 6967
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ بْنُ مَنْصُورٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، حَدَّثَنَا سَعِيدٌ الْجُرَيْرِيُّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ حَنْظَلَةَ ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَعَظَنَا فَذَكَّرَ النَّارَ، قَالَ: ثُمَّ جِئْتُ إِلَى الْبَيْتِ فَضَاحَكْتُ الصِّبْيَانَ وَلَاعَبْتُ الْمَرْأَةَ، قَالَ: فَخَرَجْتُ، فَلَقِيتُ أَبَا بَكْرٍ فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: وَأَنَا قَدْ فَعَلْتُ مِثْلَ مَا تَذْكُرُ، فَلَقِينَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، نَافَقَ حَنْظَلَةُ، فَقَالَ: مَهْ فَحَدَّثْتُهُ بِالْحَدِيثِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: وَأَنَا قَدْ فَعَلْتُ مِثْلَ مَا فَعَلَ، فَقَالَ يَا حَنْظَلَةُ: " سَاعَةً وَسَاعَةً وَلَوْ كَانَتْ تَكُونُ قُلُوبُكُمْ كَمَا تَكُونُ عِنْدَ الذِّكْرِ لَصَافَحَتْكُمُ الْمَلَائِكَةُ حَتَّى تُسَلِّمَ عَلَيْكُمْ فِي الطُّرُقِ "،
عبدالصمد کے والد (عبدالوارث بن سعید) نے کہا: ہمیں سعید جریری نے ابوعثمان نہدی سے حدیث بیان کی، انہوں نے حضرت حنظلہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے تو آپ نے ہمیں وعظ فرمایا اور دوزخ کی یاد دلائی۔ کہا: پھر میں گھر آیا تو بچوں کے ساتھ ہنسی مذاق کیا اور بیوی سے خوش طبعی کی، پھر میں باہر نکلا تو حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوئی،، میں نے یہی بات ان کو بتائی۔ انہوں نے کہا: میں نے بھی یہی کیا ہے جس طرح تم نے ذکر کیا ہے، پھر ہم دونوں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملے، میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! حنظلہ منافق ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "یہ کیا بات ہے؟" تو میں نے پوری بات آپ سے عرض کر دی، پھر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: جس طرح انہوں نے کیا ہے، میں بھی بالکل یہی کیا ہے (گھر جا کر بیوی بچوں کے ساتھ مشغول ہو گیا۔) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "حنظلہ (یہ) گھڑی گھڑی کا معاملہ ہے (ایک گھڑی کسی طرح ہوتی ہے اور دوسری کسی اور طرح۔) اگر تمہارے دل ہر وقت اسی طرح رہیں جیسے تذکیر و تلقین کے وقت ہوتے ہیں تو تمہارے ساتھ فرشتے مصافحے کریں حتی کہ راستوں میں تم کو سلام کہیں۔"
حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے تو آپ نے ہمیں نصیحت فرمائی اور آگ یاد دلائی، پھر میں گھر آگیا، بچوں سے ہنسی مذاق کیا اور بیوی سے اٹھکیلیاں کیں، پھر میں گھر سے نکلا اور ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ملا اور انہیں ان چیزوں سے آگاہ کیا، انھوں نے کہا، جو کام تم بیان کرتے ہو، یہ تو میں بھی کر چکا ہوں۔ سو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ملے اور میں نے کہا، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! حنظلہ منافق ہو گیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"باز رہو، ایسی بات مت کرو۔"تومیں نے آپ کو واقعہ سنایا، چنانچہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، میں بھی اس جیسے کام کر چکا ہوں تو آپ نے فرمایا:"اے حنظلہ وقتاً فوقتاً کسی کسی گھڑی، اگر تمھارے دل اس طرح رہیں، جیسے ذکر کے وقت ہوتے ہیں تو فرشتے تمھارے ساتھ مصافحہ کریں،حتی کہ تمھیں راستہ میں سلام کہیں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4239  
´نیک کام کو ہمیشہ کرنے کی فضیلت کا بیان۔`
حنظلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھے اور ہم نے جنت اور جہنم کا ذکر اس طرح کیا گویا ہم اپنی آنکھوں سے اس کو دیکھ رہے ہیں، پھر میں اپنے اہل و عیال کے پاس چلا گیا، اور ان کے ساتھ ہنسا کھیلا، پھر مجھے وہ کیفیت یاد آئی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھی، میں گھر سے نکلا، راستے میں مجھے ابوبکر رضی اللہ عنہ مل گئے، میں نے کہا: میں منافق ہو گیا، میں منافق ہو گیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: یہی ہمارا بھی حال ہے، حنظلہ رضی اللہ عنہ گئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے اس کیفیت کا ذکر کیا، تو آ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4239]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اپنے ایمان اور قلبی کیفیات کے بارے میں بہت محتاط رہتے تھے اور ڈرتے تھے کہ کسی نادانستہ غلطی کی وجہ سے ان کے درجات میں کمی نہ آجائے۔

(2)
دل کی کیفیات تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔

(3)
بیوی بچوں کے حقوق ادا کرنا اور شرعی حدود کے اندر رہتے ہوئے دنیا کے معاملات میں مثغول ہونا شرعا مطلوب ہے۔

(4)
انسان کو فرشتوں سے (بعض لحاظ سے)
افضل قراردیا گیا ہے۔
تو اس کی وجہ یہ ہے کہ انسان ایسے حالات میں گھرا ہوا ہے۔
جو اسے اللہ سے غافل کرتے ہیں۔
پھر بھی وہ اللہ کو یاد کرتا اور اس کی عبادت کرتا ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4239   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2452  
´باب:۔۔۔`
حنظلہ اسیدی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تمہاری وہی کیفیت رہے، جیسی میرے سامنے ہوتی ہے تو فرشتے اپنے پروں سے تم پر سایہ کریں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب صفة القيامة والرقائق والورع/حدیث: 2452]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
اس حدیث سے معلوم ہواکہ نیک لوگوں کی مجلس میں رہنے سے دلوں میں اللہ کا خوف پیدا ہوتاہے،
آخرت یاد آتی ہے،
اور دنیا کی چاہت کم ہوجاتی ہے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2452