صحيح مسلم
كِتَاب صِفَاتِ الْمُنَافِقِينَ وَأَحْكَامِهِمْ -- منافقین کی صفات اور ان کے بارے میں احکام
1. باب صِفَّاتِ الْمُنَافِقِينَ وَأَحْكَامِهِمْ
باب: منافقین کی صفات اور ان کے بارے میں احکام۔
حدیث نمبر: 7042
حَدَّثَنِي عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى الْيَمَامِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ ، حَدَّثَنَا إِيَاسٌ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، قَالَ: عُدْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا مَوْعُوكًا، قَالَ: فَوَضَعْتُ يَدِي عَلَيْهِ، فَقُلْتُ: وَاللَّهِ مَا رَأَيْتُ كَالْيَوْمِ رَجُلًا أَشَدَّ حَرًّا، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُخْبِرُكُمْ بِأَشَدَّ حَرًّا مِنْهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَذَيْنِكَ الرَّجُلَيْنِ الرَّاكِبَيْنِ الْمُقَفِّيَيْنِ لِرَجُلَيْنِ حِينَئِذٍ مِنْ أَصْحَابِهِ ".
ایاس (بن سلمہ بن اکوع) نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: مجھے میرے والد نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک شخص کی، جسے بخار چڑھا ہوا تھا، عیادت کی، کہا: میں نے اس (کےجسم) پر اپنا ہاتھ رکھا تو میں نے کہا: اللہ کی قسم! میں نے آج کی طرح کسی شخص کو نہیں دیکھا جو اس سے زیادہ تپ رہا ہو، تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کیا میں تمھیں قیامت کے دن اس سے بھی زیادہ تپتے ہوؤں کے بارے میں نہ بتاؤں؟یہ دونوں شخص جو (اونٹوں پر) سوار ہیں، اپنے منہ دوسری طرف کیے ہوئے ہیں۔" (آپ نے یہ بات) دو آدمیوں کے بارے میں (فرمائی) جو اس وقت (ظاہر طور) آپ کے ساتھیوں میں (شمار ہوتے) تھے۔
ایاس رحمۃ اللہ علیہ اپنے باپ (سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ)سے بیان کرتے ہیں، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک بخار زدہ شخص کی عیادت کے لیے گئے تو میں نے اس پر اپنا ہاتھ رکھا، چنانچہ میں نے کہا، واللہ! میں نے آج تک اس قدر گرم بدن آدمی نہیں دیکھا تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا میں تمھیں قیامت کے دن اس سے بھی گرم بدن آدمی کے بارے میں نہ بتاؤں؟ یہ دو سوار آدمی جو منہ پھیرے ہوئے ہیں۔"یہ دو آدمی اس وقت آپ کے ساتھیوں میں سے تھے۔"
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7042  
1
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
منافقوں کو آپ کے ساتھیوں میں سے اس لیے شمار کیا جاتا ہے،
کیونکہ وہ کلمہ گوتھے اورآپ پر ایمان لانے کا دعویٰ کرتے تھے اورصحابہ کرام کو ان کے باطن کا پتہ نہ تھا۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7042