صحيح مسلم
كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ -- قیامت اور جنت اور جہنم کے احوال
4. باب سُؤَالِ الْيَهُودِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الرُّوحِ وَقَوْلِهِ تَعَالَى: {يَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ} الآيَةَ:
باب: یہودیوں کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے متعلق سوال کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو وحی الٰہی کے مطابق جواب۔
حدیث نمبر: 7059
حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ حَفْصِ بْنِ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، حَدَّثَنِي إِبْرَاهِيمُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: بَيْنَمَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَرْثٍ وَهُوَ مُتَّكِئٌ عَلَى عَسِيبٍ، " إِذْ مَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، فَقَالُوا: مَا رَابَكُمْ إِلَيْهِ لَا يَسْتَقْبِلُكُمْ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالُوا: سَلُوهُ، فَقَامَ إِلَيْهِ بَعْضُهُمْ، فَسَأَلَهُ عَنِ الرُّوحِ، قَالَ: فَأَسْكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمْ يَرُدَّ عَلَيْهِ شَيْئًا، فَعَلِمْتُ أَنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، قَالَ: فَقُمْتُ مَكَانِي فَلَمَّا نَزَلَ الْوَحْيُ، قَالَ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا سورة الإسراء آية 85 "،
حفص بن غیاث نے کہا: ہمیں میرے والد نے حدیث بیان کی کہا: ہمیں اعمش نے حدیث بیان کی، کہا: مجھے ابراہیم نے علقمہ سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ایک مرتبہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک کھیت میں چلا جارہا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کی ایک شاخ کا سہارا لے (کر چل) رہے تھے کہ آپ کا یہود کے چند لوگوں کے قریب سے گزر ہوا ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ان سے روح کے بارے میں سوال کرو پھر وہ ایک دوسرے سے کہنے لگے: ان کے بارے میں تمھیں شک کس بات کا ہے؟ایسا نہ ہو کہ وہ آگے سے ایسی بات کہہ دیں جو تمھیں بری لگے پھر ان میں سے ایک شخص کھڑا ہوکر آپ کے پاس آگیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے روح کے بارے میں سوال کیا۔ (حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے) کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (تھوڑی دیر کے لیے) خاموش ہو گئے اور ان کو کوئی جواب نہ دیا۔مجھے معلوم ہو گیا کہ آپ پروحی نازل ہو رہی ہے۔ کہا میں بھی اپنی جگہ پر (رک کر) کھڑا ہو گیا۔جب وحی نازل ہو چکی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (یہ پڑھتے ہوئے) فرمایا: "یہ لوگ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ کہہ دیجیے روح میرے رب کے حکم سے ہے اور تم (انسانوں) کو بہت کم علم دیا گیا ہے۔
حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، جبکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ، ایک کھیت میں چل رہا تھا اور آپ نے کھجور کی چھڑی کا سہارا لیا ہوا تھا تو آپ یہودیوں کے ایک گروہ کے پاس سے گزرے تو انھوں نے ایک دوسرے سے کہا، ان سے روح کے بارے میں سوال کرو، دوسروں نے کہا:" تمھیں ان سے یہ سوال کرنے کی کیا ضرورت ہے۔؟وہ تمھیں ایسا جواب نہ دے دیں، جو تمھیں ناپسندہو، دوسروں نے کہا، ان سے سوال کرو تو ان میں بعض نے آپ کے پاس آکر، آپ سے روح کے بارے میں سوال کیا، سو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چپ رہے اور اسے کوئی جواب نہ دیا تو میں جان گیا کہ آپ کی وحی نازل کی جارہی ہے تو اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا، چنانچہ جب وحی اتر چکی، آپ نے فرمایا:"وہ آپ سے روح کے بارے میں سوال کرتے ہیں آپ فرماد یجیے روح میرے رب کے امر سے ہے اور تم بہت ہی کم علم دئیے گئے ہو۔"(اسراء آیت نمبر85۔)
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 125  
´اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کی تشریح میں کہ تمہیں تھوڑا علم دیا گیا ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: بَيْنَا أَنَا أَمْشِي مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَرِبِ الْمَدِينَةِ وَهُوَ يَتَوَكَّأُ عَلَى عَسِيبٍ مَعَهُ، فَمَرَّ بِنَفَرٍ مِنْ الْيَهُودِ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: سَلُوهُ عَنِ الرُّوحِ، وَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَا تَسْأَلُوهُ، لَا يَجِيءُ فِيهِ بِشَيْءٍ تَكْرَهُونَهُ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَنَسْأَلَنَّهُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْهُمْ، فَقَالَ: يَا أَبَا الْقَاسِمِ، مَا الرُّوحُ؟ فَسَكَتَ، فَقُلْتُ: إِنَّهُ يُوحَى إِلَيْهِ، فَقُمْتُ، فَلَمَّا انْجَلَى عَنْهُ، قَالَ: وَيَسْأَلُونَكَ عَنِ الرُّوحِ قُلِ الرُّوحُ مِنْ أَمْرِ رَبِّي وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلا قَلِيلا . . .»
. . . عبداللہ بن مسعود سے روایت کیا، وہ کہتے ہیں کہ (ایک مرتبہ) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ کے کھنڈرات میں چل رہا تھا اور آپ کھجور کی چھڑی پر سہارا دے کر چل رہے تھے، تو کچھ یہودیوں کا (ادھر سے) گزر ہوا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا کہ آپ سے روح کے بارے میں کچھ پوچھو، ان میں سے کسی نے کہا مت پوچھو، ایسا نہ ہو کہ وہ کوئی ایسی بات کہہ دیں جو تمہیں ناگوار ہو (مگر) ان میں سے بعض نے کہا کہ ہم ضرور پوچھیں گے، پھر ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا، اے ابوالقاسم! روح کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاموشی اختیار فرمائی، میں نے (دل میں) کہا کہ آپ پر وحی آ رہی ہے۔ اس لیے میں کھڑا ہو گیا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے (وہ کیفیت) دور ہو گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (قرآن کی یہ آیت جو اس وقت نازل ہوئی تھی) تلاوت فرمائی (اے نبی!) تم سے یہ لوگ روح کے بارے میں پوچھ رہے ہیں۔ کہہ دو کہ روح میرے رب کے حکم سے ہے۔ اور تمہیں علم کا بہت تھوڑا حصہ دیا گیا ہے . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْعِلْمِ/بَابُ قَوْلِ اللَّهِ تَعَالَى: وَمَا أُوتِيتُمْ مِنَ الْعِلْمِ إِلاَّ قَلِيلاً: 125]

تشریح:
چونکہ توارۃ میں بھی روح کے متعلق یہ ہی بیان کیا گیا کہ وہ خدا کی طرف سے ایک چیز ہے، اس لیے یہودی معلوم کرنا چاہتے تھے کہ ان کی تعلیم بھی توراۃ کے مطابق ہے یا نہیں؟ یا روح کے سلسلہ میں یہ بھی ملاحدہ وفلاسفہ کی طرح دور از کار باتیں کہتے ہیں۔ بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سوال آپ سے مکہ شریف میں بھی کیا گیا تھا، پھر مدینہ کے یہودی نے بھی اسے دہرایا۔ اہل سنت کے نزدیک روح جسم لطیف ہے جو بدن میں اسی طرح سرایت کئے ہوئے ہے، جس طرح گلاب کی خوشبو اس کے پھول میں سرایت کئے ہوتی ہے۔ روح کے بارے میں ستر اقوال ہیں۔

حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے کتاب الروح میں ان پر خوب روشنی ڈالی ہے۔ واقعہ یہی ہے کہ روح خالص ایک لطیف شئے ہے، اس لیے ہم اپنی موجودہ زندگی میں جو کثافت سے بھرپور ہے کسی طرح روح کی حقیقت سے واقف نہیں ہو سکتے، اکابر اہل سنت کی یہی رائے ہے کہ ادب کا تقاضا یہی ہے کہ روح کے بارے میں سکوت اختیار کیا جائے، بعض علماء کی رائے ہے کہ «من امر ربي» سے مراد روح کا عالم امر سے ہونا ہے جو عالم ملکوت ہے، جمہور کا اتفاق ہے کہ روح حادث ہے جس طرح دوسرے تمام اجزا حادث ہیں۔ حضرت امام قدس سرہ کا منشائے باب یہ ہے کہ کوئی شخص کتنا ہی بڑا عالم فاضل محدث مفسر بن جائے مگر پھر بھی انسانی معلومات کا سلسلہ بہت محدود ہے اور کوئی شخص نہیں کہہ سکتا کہ وہ جملہ علوم پر حاوی ہو چکا ہے۔ «الا من شاءالله»
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 125   
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7059  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
مارابكم اليه:
تم کو اس سوال پر کس شک وشبہ نے آمادہ کیا ہے۔
(2)
لا يستقبلكم بشيء:
تمہیں وہ کوئی ایسا جواب نہ دے دیں،
جو تمھیں ناپسند ہو،
جس سے اس کی نبوت ثابت ہوتی ہے۔
فوائد ومسائل:
جس روح کے بارے میں یہود نے قریش کے اکسانے پر سوال کیا تھا،
اس سے کیا مراد ہے،
اس کے بارے میں اختلاف ہے،
بعض کے نزدیک اس سےمرادروحیات ہے،
جس سے انس و حیوان اور جن زندہ ہیں،
بعض کے نزدیک،
جبریل ہے اور بعض کے نزدیک عیسٰی علیہ السلام اور بعض کے نزدیک مرادوحی ہے،
جس سے قلب وروح کوزندگی حاصل ہوتی ہےاور وَكَذَٰلِكَ أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ رُوحًا مِّنْ أَمْرِنَا سے،
اس آخری قول کی تائید ہوتی ہےاوروحی کی حقیقت وہ جان سکتا ہے،
جس پر اس کانزول ہوتا ہے،
دوسروں کے لیے اس کا سمجھنا ممکن نہیں ہے۔
اس حدیث کی بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے یہ سوال براہ راست یہود نے مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد کیا تھاجیسا کہ صراحتا آرہاہے فی حرث المدينه لیکن یہ آیت سورۂ بنی اسرائیل کی ہے جس سے معلوم ہوا یہ سوال مشرکین مکہ نے کیا تھا تو اس حدیث سےمعلوم ہوا ہے یہودیوں نے قریش مکہ کو بتایا کہ وہ یہ سوال کریں پھر ہجرت کے بعد براہ راست سوال کیا تو پھر نزول الوحی کا معنی ہوگا آپ کے توجہ پہلے نازل شدہ آیت کی طرف مبذول کی گئی ہے کہ کسی مزید جواب کی ضرورت نہیں ہے اتنا جواب ہی کافی ہے اس لئے تعدد نزول آیت دوبارہ اتری کہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7059