صحيح مسلم
كِتَاب صِفَةِ الْقِيَامَةِ وَالْجَنَّةِ وَالنَّارِ -- قیامت اور جنت اور جہنم کے احوال
6. باب قَوْلِهِ: {إِنَّ الإِنْسَانَ لَيَطْغَى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى}:
باب: آیت «إِنَّ الإِنْسَانَ لَيَطْغَى أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى» کا شانِ نزول۔
حدیث نمبر: 7065
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى الْقَيْسِيُّ ، قَالَا: حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ أَبِيهِ ، حَدَّثَنِي نُعَيْمُ بْنُ أَبِي هِنْدٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ أَبُو جَهْلٍ: هَلْ يُعَفِّرُ مُحَمَّدٌ وَجْهَهُ بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ؟، قَالَ: فَقِيلَ: نَعَمْ، فَقَالَ: وَاللَّاتِ وَالْعُزَّى لَئِنْ رَأَيْتُهُ يَفْعَلُ ذَلِكَ لَأَطَأَنَّ عَلَى رَقَبَتِهِ، أَوْ لَأُعَفِّرَنَّ وَجْهَهُ فِي التُّرَابِ، قَالَ: فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي زَعَمَ لِيَطَأَ عَلَى رَقَبَتِهِ، قَالَ: فَمَا فَجِئَهُمْ مِنْهُ إِلَّا وَهُوَ يَنْكُصُ عَلَى عَقِبَيْهِ، وَيَتَّقِي بِيَدَيْهِ، قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: مَا لَكَ؟، فَقَالَ: إِنَّ بَيْنِي وَبَيْنَهُ لَخَنْدَقًا مِنْ نَارٍ وَهَوْلًا وَأَجْنِحَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ دَنَا مِنِّي لَاخْتَطَفَتْهُ الْمَلَائِكَةُ عُضْوًا عُضْوًا، قَالَ: فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَا نَدْرِي فِي حَدِيثِ أَبِي هُرَيْرَةَ أَوْ شَيْءٌ بَلَغَهُ كَلَّا إِنَّ الإِنْسَانَ لَيَطْغَى {6} أَنْ رَآهُ اسْتَغْنَى {7} إِنَّ إِلَى رَبِّكَ الرُّجْعَى {8} أَرَأَيْتَ الَّذِي يَنْهَى {9} عَبْدًا إِذَا صَلَّى {10} أَرَأَيْتَ إِنْ كَانَ عَلَى الْهُدَى {11} أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَى {12} أَرَأَيْتَ إِنْ كَذَّبَ وَتَوَلَّى {13} سورة العلق آية 6-13 يَعْنِي أَبَا جَهْلٍ أَلَمْ يَعْلَمْ بِأَنَّ اللَّهَ يَرَى {14} كَلَّا لَئِنْ لَمْ يَنْتَهِ لَنَسْفَعًا بِالنَّاصِيَةِ {15} نَاصِيَةٍ كَاذِبَةٍ خَاطِئَةٍ {16} فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ {17} سَنَدْعُ الزَّبَانِيَةَ {18} كَلَّا لا تُطِعْهُ سورة العلق آية 14-19 زَادَ عُبَيْدُ اللَّهِ فِي حَدِيثِهِ، قَالَ: وَأَمَرَهُ بِمَا أَمَرَهُ بِهِ، وَزَادَ ابْنُ عَبْدِ الْأَعْلَى، فَلْيَدْعُ نَادِيَهُ: يَعْنِي قَوْمَهُ.
عبید اللہ بن معاذ اور محمد بن عبد الاعلی قیسی نے ہمیں حدیث بیان کی دونوں نے کہا: ہمیں معتمر نے اپنے والد سے حدیث سنائی، انھوں نے کہا: مجھے نعیم بن ابی ہندنےابوحازم سے حدیث بیان کی، انھوں نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہا: ابوجہل نے کہا: کیا محمدتم لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ زمین پر رکھتے ہیں؟ (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو کہا گیا: ہاں چنانچہ اس نے کہا: لات اور عزیٰ کی قسم!اگر میں نے ان کو ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو میں ان کی گردن کو روندوں گا یا ان کے چہرےکو مٹی میں ملاؤں گا (العیاذ باللہ!) کہا: پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے وہ آپ کے پاس آیا اور یہ ارادہ کیا کہ آپ کی گردن مبارک کوروندے (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: تووہ انھیں اچانک ایڑیوں کے بل پلٹتا ہوا اور اپنے دونوں ہاتھوں (کو آگے کر کے ان) سے اپنا بچاؤ کرتا ہوا نظر آیا۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: تو اس سے کہا کیا: تمھیں کیا ہوا؟تو اس نے کہا: میرے اور اس کے درمیان آگ کی ایک خندق اور سخت ہول (پیدا کرنے والی مخلوق) اور بہت سے پر تھے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: "اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کے ایک ایک عضو کو اچک لیتے۔ (ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے) کہا: اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیاتنازل فرمائیں۔ (ابو حازم نے کہا۔ (ہمیں معلوم نہیں کہ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی) اپنی حدیث ہے یا انھیں (کسی کی طرف سے) پہنچی ہے۔ (وہ آیات یہ تھیں) "اس کے سواکوئی بات نہیں کہ انسان ہر صورت میں سر کشی کرتا ہے اس لیے کہ وہ خود کو دیکھتا ہے کہ وہ ہر ایک سے مستغنی ہے حقیقت یہ ہے کہ (اسے) آپ کے رب کی طرف واپس جانا ہے۔آپ نے اسے دیکھا جو روکتا ہے۔ (اللہ کے) بندے کو جب وہ نماز اداکرتا ہے۔کیا تم نے دیکھا کہ اگر وہ (اللہ کا بندہ) ہدایت پر ہو اور تقوی کا حکم دیتا ہو (تو روکنے والے کا کیا بنے گا؟) کیا آپ نے دیکھا کہ آکر اس یعنی ابو جہل نے جھٹلایا ہے اور ہدایت سے منہ پھیراہے۔ (تو) کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھتا ہے۔ہر گز نہیں!اگر وہ باز نہ آیا تو ہم (اسے) پیشانی سے پکڑ کر کھینچیں کے۔ (اس کی) جھوٹی گناہ کرنے والی پیشانی سے پھر وہ اپنی مجلس کو (مددکے لیے) پکارے ہم عذاب دینے والے فرشتوں کو بلائیں گے۔ ہر گز نہیں!آپ اس کی (کوئی بات بھی) نہ مانیں۔" عبید اللہ (بن معاذ) نے اپنی حدیث میں مزید کہا۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے أَوْ أَمَرَ بِالتَّقْوَیٰ کی تفسیر کرتے ہوئے) کہا: اور اس بات کا حکم دیتا ہو جس کا اس (اللہ) نے اسے حکم دیا ہے۔اور (محمد) بن عبد الاعلیٰ نے مزید یہ کہا: "وہ اپنی مجلس کو پکارے "یعنی اپنی قوم کو۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں:ابوجہل نے کہا: کیا محمدتم لوگوں کے سامنے اپنا چہرہ زمین پر رکھتے ہیں؟ (حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے)کہا: تو کہا گیا: ہاں چنانچہ اس نے کہا: لات اور عزیٰ کی قسم!اگر میں نے ان کو ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو میں ان کی گردن کو روندوں گا یا ان کے چہرےکو مٹی میں ملاؤں گا(العیاذ باللہ!)کہا: پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھ رہے تھے وہ آپ کے پاس آیا اور یہ ارادہ کیا کہ آپ کی گردن مبارک کوروندے(ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا: تووہ انھیں اچانک ایڑیوں کے بل پلٹتا ہوا اور اپنے دونوں ہاتھوں (کو آگے کر کے ان)سے اپنا بچاؤ کرتا ہوا نظر آیا۔(ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا:تو اس سے کہا کیا:تمھیں کیا ہوا؟تو اس نے کہا: میرے اور اس کے درمیان آگ کی ایک خندق اور سخت ہول (پیدا کرنے والی مخلوق)اور بہت سے پر تھے۔تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:"اگر وہ میرے قریب آتا تو فرشتے اس کے ایک ایک عضو کو اچک لیتے۔(ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے)کہا: اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیاتنازل فرمائیں۔(ابو حازم نے کہا۔(ہمیں معلوم نہیں کہ یہ ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی) اپنی حدیث ہے یا انھیں(کسی کی طرف سے) پہنچی ہے۔ (وہ آیات یہ تھیں)"اس کے سواکوئی بات نہیں کہ انسان ہر صورت میں سر کشی کرتا ہے اس لیے کہ وہ خود کو دیکھتا ہے کہ وہ ہر ایک سے مستغنی ہے حقیقت یہ ہے کہ(اسے)آپ کے رب کی طرف واپس جانا ہے۔آپ نے اسے دیکھا جو روکتا ہے۔(اللہ کے)بندے کو جب وہ نماز اداکرتا ہے۔کیا تم نے دیکھا کہ اگر وہ (اللہ کا بندہ)ہدایت پر ہو اور تقوی کا حکم دیتا ہو(تو روکنے والے کا کیا بنے گا؟)کیا آپ نے دیکھا کہ آکر اس یعنی ابو جہل نے جھٹلایا ہے اور ہدایت سے منہ پھیراہے۔(تو) کیا وہ نہیں جانتا کہ اللہ دیکھتا ہے۔ہر گز نہیں!اگر وہ باز نہ آیا تو ہم (اسے) پیشانی سے پکڑ کر کھینچیں کے۔ (اس کی)جھوٹی گناہ کرنے والی پیشانی سے پھر وہ اپنی مجلس کو(مددکے لیے) پکارے۔ہم عذاب دینے والے فرشتوں کو بلائیں گے۔ ہر گز نہیں!آپ اس کی(کوئی بات بھی) نہ مانیں۔"(سورہ علق۔آیت نمبر۔6تا19)عبیداللہ کی حدیث میں یہ اضافہ ہے،اللہ نے اسے حکم دیا،جو اس نے اپنے اعوان وانصار کو حکم دیا تھا،ابن عبدالاعلیٰ نے اضافہ کیا،وہ اپنی مجلس یعنی اپنی قوم کو بلالے۔
  الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 7065  
1
حدیث حاشیہ:
مفردات الحدیث:
(1)
هل يعفر وجهه:
عفر(خاک،
مٹی)

کیا وہ اپنا چہرے پر مٹی ملتاہے،
سجدہ کرتا ہے۔
(2)
الرجعي:
واپسی،
رجوع،
یہ حاصل مصدر ہے،
(3)
ناديه،
سوسائیٹی،
مجلس،
ٹولی اور پارٹی مراد ہے (4)
زبانية،
زبنية کی جمع ہے،
دفاع کرنے والے،
باڈی گارڈ،
مراد وہ فرشتے ہیں،
جو خاص نوعیت کی مہمات پر بھیجے جاتے ہیں۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے اس انتظام کا اظہار ہو رہا ہے،
جو اللہ تعالیٰ اپنے رسولوں کی حفاظت کے لیے فر ماتا ہے،
تاکہ ان کے دشمن ان کو ضرر نہ پہنچا سکیں اور آیات میں ان سرمایا داروں اور لیڈروں کی عکاسی کی گئی ہے،
جو اپنے مال و دولت کے غرے میں مبتلا ہو کر سر کشی اور طغیان اختیار کرتے ہیں،
اور جس نے سب کچھ دیا ہے،
اس سے ہی اعراض کرتےہیں،
چونکہ دماغ کا سامنے والا حصہ جسے ناصیہ کہا گیاہے،
وہی مجرمانہ پلاننگ کرتا ہے،
ظلم وزیادتی کا مرکز ہے،
اس لیے چوٹی پکڑ کر گھسیٹنے کا تذکرہ کیا گیا ہے اور اسے جھوٹی،
خطا کار قراردیا گیا ہے۔
   تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 7065