صحيح البخاري
كِتَاب الْجَنَائِزِ -- کتاب: جنازے کے احکام و مسائل
79. بَابُ إِذَا أَسْلَمَ الصَّبِيُّ فَمَاتَ هَلْ يُصَلَّى عَلَيْهِ وَهَلْ يُعْرَضُ عَلَى الصَّبِيِّ الإِسْلاَمُ:
باب: ایک بچہ اسلام لایا پھر اس کا انتقال ہو گیا، تو کیا اس کی نماز جنازہ پڑھی جائے گی؟ اور کیا بچے کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کی جا سکتی ہے؟
حدیث نمبر: 1355
وَقَالَ سَالِمٌ: سَمِعْتُ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , يَقُولُ: انْطَلَقَ بَعْدَ ذَلِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ إِلَى النَّخْلِ الَّتِي فِيهَا ابْنُ صَيَّادٍ، وَهُوَ يَخْتِلُ أَنْ يَسْمَعَ مِنْ ابْنِ صَيَّادٍ شَيْئًا قَبْلَ أَنْ يَرَاهُ ابْنُ صَيَّادٍ، فَرَآهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ يَعْنِي: فِي قَطِيفَةٍ لَهُ فِيهَا رَمْزَةٌ أَوْ زَمْرَةٌ، فَرَأَتْ أمُّ ابْنِ صَيّادٍ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَّقِي بِجُذُوعِ النَّخْلِ، فَقَالَتْ لِابْنِ صَيَّادٍ: يَا صَافِ وَهُوَ اسْمُ ابْنِ صَيَّادٍ هَذَا مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَثَارَ ابْنُ صَيَّادٍ , فَقَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَوْ تَرَكَتْهُ بَيَّنَ، وَقَالَ شُعَيْبٌ فِي حَدِيثِهِ: فَرَفَصَهُ رَمْرَمَةٌ أَوْ زَمْزَمَةٌ، وَقَالَ إِسْحَاقُ الْكَلْبِيُّ وَعُقَيْلٌ: رَمْرَمَةٌ، وَقَالَ مَعْمَرٌ: رَمْزَةٌ.
اور سالم نے کہا کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہتے تھے پھر ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابی بن کعب رضی اللہ عنہ دونوں مل کر ان کھجور کے درختوں میں گئے۔ جہاں ابن صیاد تھا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے تھے کہ ابن صیاد آپ کو نہ دیکھے اور) اس سے پہلے کہ وہ آپ کو دیکھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم غفلت میں اس سے کچھ باتیں سن لیں۔ آخر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دیکھ لیا۔ وہ ایک چادر اوڑھے پڑا تھا۔ کچھ گن گن یا پھن پھن کر رہا تھا۔ لیکن مشکل یہ ہوئی کہ ابن صیاد کی ماں نے دور ہی سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے تنوں میں چھپ چھپ کر جا رہے تھے۔ اس نے پکار کر ابن صیاد سے کہہ دیا صاف! یہ نام ابن صیاد کا تھا۔ دیکھو محمد آن پہنچے۔ یہ سنتے ہی وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش اس کی ماں ابن صیاد کو باتیں کرنے دیتی تو وہ اپنا حال کھولتا۔ شعیب نے اپنی روایت میں «رمرمة فرفصه» اور عقیل نے «رمرمة‏» نقل کیا ہے اور معمر نے «رمزة‏» کہا ہے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1355  
1355. حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہی سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:اس کے بعد پھر ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ اورحضرت ابی ابن کعب ؓ کھجوروں کے اس باغ میں گئے جس میں ابن صیاد تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ اس سے کچھ باتیں سنیں قبل اس کے کہ وہ آپ کو دیکھے چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اسے بایں حالت دیکھا کہ وہ ایک چادر اوڑھے کچھ گنگنارہا تھا۔ آپ کھجور کے درختوں کی آڑ میں چل رہے تھے کہ ابن صیاد کی ماں نے آپ ﷺ کو دیکھ لیا اور اسے آواز دی:اےصاف!۔۔۔ یہ ابن صیاد کا نام ہے۔۔۔ یہ محمد ﷺ آگئے ہیں۔ یہ سن کر ابن صیاد اٹھ بیٹھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اگر وہ عورت اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیتی تو وہ اپنا معاملہ کچھ واضح کردیتا۔ شعیب کی روایت میں زمزمة کے الفاظ میں اوررفضه کی جگہ رفصه ہے۔ اسحق کلبی اور عقیل کی روایت میں رمرمة اور معمر کی روایت میں رمزه کے الفاظ ہیں۔ (ان تمام الفاظ کے معنی ہیں:اس کی ایک ایسی خفی آواز تھی جو سمجھ میں نہیں [صحيح بخاري، حديث نمبر:1355]
حدیث حاشیہ:
ابن صیاد ایک یہودی لڑکا تھا جو مدینہ میں دجل وفریب کی باتیں کرکرکے عوام کو بہکایا کرتا تھا۔
آنحضرت ﷺ نے اس پر اسلام پیش فرمایا۔
اس وقت وہ نابالغ تھا۔
اسی سے امام بخاری ؓ کا مقصد باب ثابت ہوا۔
آپ ﷺ اس کی طرف سے مایوس ہوگئے کہ وہ ایمان لانے والا نہیں یا آپ ﷺ نے جواب میں اس کو چھوڑ دیا، یعنی اس کی نسبت لاونعم کچھ نہیں کہا صرف اتنا فرمادیا کہ میں اللہ کے سب پیغمبروں پر ایمان لایا۔
بعض روایتوں میں فرفصه صاد مہملہ سے ہے کہ یعنی ایک لات اس کو جمائی۔
بعضوں نے کہا کہ آپ ﷺ نے اسے دبا کر بھینچا آپ ﷺ نے جو کچھ اس سے پوچھا، اس سے آپ کی غرض محض یہ تھی کہ اس کا جھوٹ کھل جائے اور اس کا پیغمبری کا دعویٰ غلط ہو۔
ابن صیاد نے جواب میں کہا کہ میں کبھی سچا کبھی جھوٹا خواب دیکھتا ہوں‘ یہ شخص کاہن تھا، اس کو جھوٹی سچی خبریں شیطان دیا کرتے تھے۔
دخان کی جگہ صرف لفظ دخ کہا۔
شیطانوں کی اتنی ہی طاقت ہوتی ہے کہ ایک آدھ کلمہ اچک لیتے ہیں‘ اسی میں جھوٹ ملاکر مشہور کرتے ہیں (خلاصہ وحیدی)
مزید تفصیل دوسری جگہ آئے گی۔
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1355   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1355  
1355. حضرت عبداللہ بن عمرؓ ہی سے روایت ہے،انھوں نےفرمایا:اس کے بعد پھر ایک دفعہ رسول اللہ ﷺ اورحضرت ابی ابن کعب ؓ کھجوروں کے اس باغ میں گئے جس میں ابن صیاد تھا۔ آپ چاہتے تھے کہ اس سے کچھ باتیں سنیں قبل اس کے کہ وہ آپ کو دیکھے چنانچہ نبی کریم ﷺ نے اسے بایں حالت دیکھا کہ وہ ایک چادر اوڑھے کچھ گنگنارہا تھا۔ آپ کھجور کے درختوں کی آڑ میں چل رہے تھے کہ ابن صیاد کی ماں نے آپ ﷺ کو دیکھ لیا اور اسے آواز دی:اےصاف!۔۔۔ یہ ابن صیاد کا نام ہے۔۔۔ یہ محمد ﷺ آگئے ہیں۔ یہ سن کر ابن صیاد اٹھ بیٹھا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اگر وہ عورت اسے (اس کے حال پر) چھوڑ دیتی تو وہ اپنا معاملہ کچھ واضح کردیتا۔ شعیب کی روایت میں زمزمة کے الفاظ میں اوررفضه کی جگہ رفصه ہے۔ اسحق کلبی اور عقیل کی روایت میں رمرمة اور معمر کی روایت میں رمزه کے الفاظ ہیں۔ (ان تمام الفاظ کے معنی ہیں:اس کی ایک ایسی خفی آواز تھی جو سمجھ میں نہیں [صحيح بخاري، حديث نمبر:1355]
حدیث حاشیہ:
(1)
ابن صیاد ایک یہودی لڑکا تھا جو مدینہ منورہ میں دجل و فریب کی باتیں کر کے لوگوں کو گمراہ کرتا تھا۔
آپ نے اس کے جھوٹ کا پول کھول کر اس کے دعوائے رسالت کو غلط ثابت کیا، پھر اس پر اسلام پیش کیا۔
اگر بچے کا اسلام صحیح نہ ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس پر اسلام پیش نہ کرتے۔
اس سے امام بخاری ﷺ کا دعویٰ ثابت ہوا کہ بچے کا اسلام قبول کرنا صحیح ہے اور اس پر دعوت اسلام پیش کرنا بھی جائز ہے۔
(2)
حضرت عمر ؓ ابن صیاد کو قتل کرنا چاہتے تھے، کیونکہ انہیں شبہ تھا کہ یہ دجال اکبر ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ نے انہیں منع کر دیا، کیونکہ وہ اس وقت نابالغ تھا اور نابالغ کو کسی وجہ سے بھی قتل کرنا جائز نہیں۔
اس کے علاوہ اس وقت یہود مدینہ سے معاہدہ بھی تھا۔
ابتدائی زمانے میں اس کے احوال مشتبہ تھے۔
اس بنا پر رسول اللہ ﷺ نے حضرت عمر ؓ سے فرمایا تھا کہ اگر وہ دجال اکبر ہے تو اسے حضرت عیسیٰ ؑ قتل کریں گے۔
آئندہ صحیح بخاری کی ایک روایت میں تصریح ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عیسیٰ ؑ کے متعلق خبر دی تھی کہ وہ دجال اکبر کو قتل کریں گے تو کیسے موزوں ہوتا کہ آپ ہی کے اشارے یا اجازت سے دوسرا آدمی اسے قتل کر دے۔
ابن صیاد اور دجال اکبر کے متعلق دیگر مباحث آئندہ پیش کیے جائیں گے۔
بإذن الله۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1355