ابو اسحاق نے ہمیں حدیث بیان کی، کہا: میں نے حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ کو بیان کرتے ہوئے سنا: حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ میرے والد کے پاس ان کے گھر آئے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا، پھر (میرے والد) عازب رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے: اپنے بیٹے کو میرے ساتھ بھیج دیں، وہ اس (کجاوے) کو میرے ساتھ اٹھا کر میرے گھر پہنچادے۔میرے والد نے مجھ سے کہا: اسے تم اٹھا لو تو میں نے اسے اٹھا لیا اور میرے والد اس کی قیمت لینے کے ہے ان کے ساتھ نکل پڑے۔میرے والد نے ان سے کہا: ابو بکر!مجھے یہ بتائیں کہ جس رات آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ہجرت کے لیے) نکلے تو آپ دونوں نے کیا کیا؟انھوں نے کہا: ہاں ہم پوری رات چلتے ر ہے حتیٰ کہ دوپہر کا و قت ہوگیا اور (دھوپ کی شدت سے) راستہ خالی ہوگیا، اس میں کوئی بھی نہیں چل رہا تھا، اچانک ایک لمبی چٹان ہمارے سامنے بلند ہوئی، اس کا سایہ بھی تھا، اس پر ابھی دھوپ نہیں آئی تھی۔ہم اس کے پاس (سواریوں سے) اتر گئے۔میں چٹان کے پاس آیا، ایک جگہ اپنے ہاتھ سے سنواری تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سائے میں سوجائیں، پھر میں نے آپ کے لیے اس جگہ پر ایک نرم کھال بچھادی، پھر عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !سوجائیے اور میں آپ کے اردگرد (کے علاقے) کی تلاشی لیتا ہوں (اور نگہبانی کرتا ہوں) آ پ سو گئے، میں چاروں طرف نگرانی کرنے لگا تو میں نے دیکھا ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے چنان کی طرف آرہاتھا۔وہ بھی اس کے پاس اسی طرح (آرام) کرنا چاہتا تھا جس طرح ہم چاہتے تھے۔میں اس سے ملا اور اس سے پوچھا: لڑکے!تم کس کے (غلام) ہو؟اس نے کہا: مدینہ کے ایک شخص کا۔میں نے کہا: کیا تمھاری بکریوں (کے تھنوں) میں دودھ ہے؟اس نے کہا: ہاں۔میں نے کہا: کیا تم میرے لیے دودھ نکالو گے؟اس نے کہا: ہاں۔اس نے ایک بکری کو پکڑا تو میں نے اس سے کہا: تھنوں سے بال، مٹی اور تنکے جھاڑ لو۔ (ابو اسحاق نے) کہا: تھنوں سے بال مٹی اور تنکے جھاڑ لو۔ (ابو اسحاق نے) کہا: میں نے حضرت براء رضی اللہ عنہ کو دیکھا وہ اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مار کر جھاڑ رہے تھے، چنانچہ اس نے میرے لیے لکڑی کے ایک پیالے میں تھوڑا سا دودھ نکال دیا (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے) کہا: میرے ہمراہ چمڑے کا ایک برتن (بھی) تھا، میں اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی بھر کر رکھتا تھا تاکہ آپ نوش فرمائیں اور وضو کریں۔میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور مجھے یہ بات پسند نہ تھی کہ آپ کو جگاؤں، لیکن میں پہنچا تو آپ جاگ چکے تھے۔میں نے دودھ پر کچھ پانی ڈالا، یہاں تک کہ اس کے نیچے کا حصہ بھی ٹھنڈا ہوگیاتو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ دودھ نوش فرمالیں۔آپ نے نوش فرمایا، یہاں تک کہ میں راضی ہوگیا۔پھر آپ نے فرمایا: "کیا چلنے کاوقت نہیں آیا؟"میں نے عرض کی: کیوں نہیں!کہا: پھر سورج ڈھل جانے کے بعد ہم روان ہوگئے اور سراقہ بن مالک ہمارے پیچھے آگیا، جبکہ ہم ایک سخت زمین میں (چل رہے) تھے۔میں نے عرض کی: ہمیں لیا گیا ہے، آپ نے فرمایا: "غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف دعا کی تو اس کے گھوڑے کی ٹانگیں پیٹ تک زمین میں دھنس گئیں۔میرا خیال ہے۔اس نے کہا: مجھے پتہ چل گیا ہے تم دونوں نے میرے خلاف دعا کی ہے۔میرے حق میں دعا کرو۔ (میری طرف سے) تمہارے لیے اللہ ضامن ہے کہ میں ڈھونڈنے والوں کو تمہاری طرف سے لوٹاؤں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی تو وہ بچ گیا، پھر وہ لوٹ گیا۔جس (پچھاڑنے والے) کو ملتا اس سے یہ کہتا: میں (تلاش کرچکا ہوں) تمہاری طرف سے بھی کفایت کرتا ہوں، وہ اس طرف نہیں ہیں وہ جس کسی کو بھی ملتا اسے لوٹا دیتا۔ (حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ نے) کہا: انھوں نے ہمارے ساتھ وفا کی۔
حضرت براء بن عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں،:حضرت ابو بکرصدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ میرے والد کے پاس ان کے گھر آئے اور ان سے ایک کجاوہ خریدا،پھر(میرے والد) عازب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہنے لگے:اپنے بیٹے کو میرے ساتھ بھیج دیں،وہ اس(کجاوے) کو میرے ساتھ اٹھا کر میرے گھر پہنچادے۔میرے والد نے مجھ سے کہا:اسے تم اٹھا لو تو میں نے اسے اٹھا لیا اور میرے والد اس کی قیمت لینے کے ہے ان کے ساتھ نکل پڑے۔میرے والد نے ان سے کہا:ابو بکر!مجھے یہ بتائیں کہ جس رات آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ہجرت کے لیے) نکلے تو آپ دونوں نے کیا کیا؟انھوں نے کہا:ہاں ہم پوری رات چلتے ر ہے حتیٰ کہ دوپہر کا و قت ہوگیا اور(دھوپ کی شدت سے)راستہ خالی ہوگیا،اس میں کوئی بھی نہیں چل رہا تھا،اچانک ایک لمبی چٹان ہمارے سامنے بلند ہوئی،اس کا سایہ بھی تھا،اس پر ابھی دھوپ نہیں آئی تھی۔ہم اس کے پاس(سواریوں سے) اتر گئے۔میں چٹان کے پاس آیا،ایک جگہ اپنے ہاتھ سے سنواری تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے سائے میں سوجائیں،پھر میں نے آپ کے لیے اس جگہ پر ایک نرم کھال بچھادی،پھر عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !سوجائیے اور میں آپ کے اردگرد(کے علاقے) کی تلاشی لیتا ہوں (اور نگہبانی کرتا ہوں) آ پ سو گئے،میں چاروں طرف نگرانی کرنے لگا تو میں نے دیکھا ایک چرواہا اپنی بکریاں لیے چنان کی طرف آرہاتھا۔وہ بھی اس کے پاس اسی طرح(آرام) کرنا چاہتا تھا جس طرح ہم چاہتے تھے۔میں اس سے ملا اور اس سے پوچھا:لڑکے!تم کس کے(غلام) ہو؟اس نے کہا:مدینہ کے ایک شخص کا۔میں نے کہا:کیا تمھاری بکریوں(کے تھنوں) میں دودھ ہے؟اس نے کہا:ہاں۔میں نے کہا:کیا تم میرے لیے دودھ نکالو گے؟اس نے کہا:ہاں۔اس نے ایک بکری کو پکڑا تو میں نے اس سے کہا:تھنوں سے بال،مٹی اور تنکے جھاڑ لو۔(ابو اسحاق نے) کہا:تھنوں سے بال مٹی اور تنکے جھاڑ لو۔(ابو اسحاق نے)کہا:میں نے حضرت براء رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دیکھا وہ اپنا ایک ہاتھ دوسرے پر مار کر جھاڑ رہے تھے،چنانچہ اس نے میرے لیے لکڑی کے ایک پیالے میں تھوڑا سا دودھ نکال دیا(حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا:میرے ہمراہ چمڑے کا ایک برتن(بھی) تھا،میں اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے پانی بھر کر رکھتا تھا تاکہ آپ نوش فرمائیں اور وضو کریں۔میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور مجھے یہ بات پسند نہ تھی کہ آپ کو جگاؤں،لیکن میں پہنچا تو آپ جاگ چکے تھے۔میں نے دودھ پر کچھ پانی ڈالا،یہاں تک کہ اس کے نیچے کا حصہ بھی ٹھنڈا ہوگیاتو میں نے عرض کی:اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !یہ دودھ نوش فرمالیں۔آپ نے نوش فرمایا،یہاں تک کہ میں راضی ہوگیا۔پھر آپ نے فرمایا:"کیا چلنے کاوقت نہیں آیا؟"میں نے عرض کی:کیوں نہیں!کہا:پھر سورج ڈھل جانے کے بعد ہم روان ہوگئے اور سراقہ بن مالک ہمارے پیچھے آگیا،جبکہ ہم ایک سخت زمین میں(چل رہے) تھے۔میں نے عرض کی:ہمیں لیا گیا ہے،آپ نے فرمایا:"غم نہ کرو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔"پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے خلاف دعا کی تو اس کے گھوڑے کی ٹانگیں پیٹ تک زمین میں دھنس گئیں۔میرا خیال ہے۔اس نے کہا:مجھے پتہ چل گیا ہے تم دونوں نے میرے خلاف دعا کی ہے۔میرے حق میں دعا کرو۔(میری طرف سے) تمہارے لیے اللہ ضامن ہے کہ میں ڈھونڈنے والوں کو تمہاری طرف سے لوٹاؤں گا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے دعا کی تو وہ بچ گیا،پھر وہ لوٹ گیا۔جس(پچھاڑنے والے) کو ملتا اس سے یہ کہتا:میں (تلاش کرچکا ہوں) تمہاری طرف سے بھی کفایت کرتا ہوں،وہ اس طرف نہیں ہیں وہ جس کسی کو بھی ملتا اسے لوٹا دیتا۔(حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے) کہا:انھوں نے ہمارے ساتھ وفا کی۔