سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- کتاب: طہارت کے مسائل
3. باب مَا يَقُولُ الرَّجُلُ إِذَا دَخَلَ الْخَلاَءَ
باب: پاخانہ میں جاتے وقت آدمی کیا کہے؟
حدیث نمبر: 5
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَمْرٍو يَعْنِي السَّدُوسِيَّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ هُوَ ابْنُ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ، وَقَالَ شُعْبَةُ: وَقَالَ مَرَّةً: أَعُوذُ بِاللَّهِ، وقَالَ وُهَيْبٌ: عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ، فَلْيَتَعَوَّذْ بِاللهِ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے یہی حدیث مروی ہے اس میں «اللهم إني أعوذ بك» ہے، یعنی اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں۔‏‏‏‏ شعبہ کا بیان ہے کہ عبدالعزیز نے ایک بار «أعوذ بالله» میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں کی بھی روایت کی ہے، اور وہیب نے عبدالعزیز بن صہیب سے جو روایت کی ہے اس میں «فليتعوذ بالله» چاہیئے کہ اللہ سے پناہ مانگے کے الفاظ ہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الوضوء 9 (142)، الدعوات 15 (6322)، سنن الترمذی/الطہارة 4 (5)، (تحفة الأشراف: 1022)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/282) (شاذ)» ‏‏‏‏ (یعنی وہیب کی قولی روایت شاذ ہے، باقی صحیح ہے)

قال الشيخ الألباني: شاذ
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 5  
´پاخانہ میں جاتے وقت آدمی کیا کہے؟`
«. . . قَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ . . .»
. . . اس میں «اللهم إني أعوذ بك» ہے، یعنی اے اللہ میں تیری پناہ چاہتا ہوں [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 5]
فوائد و مسائل
➊ محدثین کرام رضی اللہ عنہم کی حفاظت حدیث کے سلسلے میں کاوشوں کی داد دی جانی چاہئیے، دیکھیے! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک الفاظ نقل کرنے میں کس قدر امانت اور دیانت کا ثبوت دیتے ہیں۔ ایک استاد نے «اللهم اني اعوذبك» بیان کیا ہے تو دوسرے نے جو سنا اور یاد رکھا وہی پیش کر دیا ہے، یعنی «اللهم اني» کی بجائے صرف «اعوذ بالله» اور محدث نے دونوں کے الفاظ الگ الگ بعینہ ویسے ہی یاد رکھے اور بیان کیے۔
➋ اس حدیث میں تعلیم ہے کہ بیت الخلاء خواہ گھر میں ہو یا جنگل میں ہر موقع پر یہ کلمات پڑھنے چاہئیں۔
➌ خیال رہے کہ یہ الفاظ بیت الخلاء سے باہر ہی پڑھے جائیں کیونکہ بیت الخلاء، اللہ کے ذکر کا مقام نہیں ہے۔ اگر جنگل میں ہو تو کپڑا اتارنے سے قبل یہ الفاظ کہے جائیں۔
➍ محدثین بیان کرتے ہیں کہ دعا کے الفاظ میں «الخبث» کو اگر «با» کے ضمہ کے ساتھ پڑھا جائے تو یہ «خبث» مذکر کی جمع ہے۔ اور «خبائث، خبيثة» مونث کی۔ مراد ہے کہ جنوں میں مذکر و مونث افراد۔ اور اگر «خبث» کی «با» کو ساکن پڑھا جائے تو معنی ہو گا: اے اللہ! میں تمام مکروہات، محرمات، برائیوں اور گندگیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 5   
  علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 78  
´ گندے مقامات پر گندگی سے انس رکھنے والے جنات بسیرا کرتے ہیں`
«. . .: كان النبي صلى الله عليه وآله وسلم إذا دخل الخلاء قال: اللهم إني اعوذ بك من الخبث والخبائث . . .»
. . . نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قضائے حاجت کے لئے بیت الخلاء میں داخلہ کے وقت یہ دعا پڑھتے تھے: اے اللہ! میں آپ کی پناہ پکڑتا ہوں، خبیث جنوں اور خبیث جنیوں سے . . . [بلوغ المرام/كتاب الطهارة: 78]
لغوی تشریح:
«إذَا دَخَلَ» یعنی جب بیت الخلا میں داخل ہونے کا ارادہ کرے۔
«اَلْخُبُث» خا اور با دونوں پر ضمہ ہے اور با پر سکون بھی پڑھا گیا ہے۔ یہ خبیث کی جمع ہے۔
«اَلْخَبَائِث» «خَبِيْثَةٌ» کی جمع ہے۔
«اوّل» کے معنی نر شیطان اور «ثاني» کے معنی مادہ شیطان کے ہیں۔ اور یہ بھی علم میں رہے کہ بیت الخلا میں مذکورہ دعا کے کلمات دخول سے پہلے پڑھنے چاہئیں، بعد میں نہیں۔ ہاں اگر کھلی فضا ہو، تعمیر شدہ مکان میں بیت الخلا نہ ہو تو رفع حاجت کے لیے نیچے بیٹھتے ہوئے کپڑا اٹھاتے وقت اس دعا کو پڑھنا چاہیے۔

فوائد و مسائل:
➊ گندے مقامات پر گندگی سے انس رکھنے والے جنات بسیرا کرتے ہیں، اس لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے قضائے حاجت کے لیے بیت الخلا میں داخلے سے پہلے دعا سکھائی ہے۔
➋ چونکہ انسان کی مقعد (پیٹھ) بھی قضائے حاجت کے وقت گندی ہوتی ہے، اس لیے جنات انسان کو اذیت دیتے اور تکلیف پہنچاتے ہیں، ان سے محفوظ رہنے کے لیے دعا کی تعلیم دی ہے۔
   بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 78   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 19  
´پاخانہ کی جگہ میں داخل ہونے کے وقت کون سی دعا پڑھے۔`
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب پاخانہ کی جگہ میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبائث» اے اللہ! میں ناپاک جنوں اور جنیوں (کے شر) سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔‏‏‏‏ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 19]
19۔ اردو حاشیہ:
➊ دخول سے مراد ارادۂ دخول ہے جیسا کہ صحیح بخاری کی روایت میں صراحت ہے۔ دیکھیے: [صحيح البخاري، الوضوء، حديث: 142]
لہٰذا یہ دعا بیت الخلا میں داخل ہونے سے پہلے پڑھنی چاہیے۔ بیت الخلا تو گندگی والی جگہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے نام کی تقدیس و تنزیہ ضروری ہے، البتہ اگر کوئی بھول جائے اور داخل ہونے کے بعد یا ننگا ہونے کے بعد یاد آئے تو اس میں صحابہ و تابعین کا اختلاف ہے کہ دل میں پڑھ لے یا رہنے دے۔ یا اگر ابھی کپڑے نہیں اتارے تو باہر آکر دعا پڑھ کر داخل ہو جائے۔
«الخبث و الخبائث» خبائث خبیثۃ کی جمع ہے، مراد جننیاں ہیں۔ خبث با کے ضمہ کے ساتھ ہو تو خبیث کی جمع ہے، مراد جن ہیں۔ اگر با کے سکون کے ساتھ ہو تو اس سے مراد ہر ناپسندیدہ اور مکروہ چیز ہے۔ اس طرح اس کے تحت تمام شریر جن، جننیاں، گندے اخلاق و اعمال اور ہر قسم کے نازیبا کلمات و اقوال داخل ہیں، لہٰذا اگر اس ضبط کے ساتھ دعا پڑھی جائے تو انسان مذکورہ ہر قسم کے شر اور مکروہات سے محفوظ رہتا ہے جبکہ جن اور جننیوں سے بچاؤ کی خاطر اس حالت میں بطور خاص دعا کی تلقین اس لیے ہے کہ انہیں گندگی اور بدبو سے یک گو نہ مناسبت ہے اور اس موقع پر وہ نقصان بھی پہنچا سکتے ہیں۔ مزید تفصیل کے لیے دیکھیے: [شرح الترمذي لأحمد شاکر: 10/1]
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 19   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 5  
´بیت الخلاء (پاخانہ) میں داخل ہونے کے وقت کی دعا​۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم جب قضائے حاجت کے لیے پاخانہ میں داخل ہوتے تو یہ دعا پڑھتے: «اللهم إني أعوذ بك من الخبث والخبيث أو الخبث والخبائث» اے اللہ! میں تیری پناہ چاہتا ہوں ناپاکی سے اور ناپاک شخص سے، یا ناپاک جنوں سے اور ناپاک جنیوں سے ۱؎۔ شعبہ کہتے ہیں: عبدالعزیز نے دوسری بار «اللهم إني أعوذ بك» کے بجائے «أعوذ بالله» کہا۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 5]
اردو حاشہ:
1؎:
مذکورہ دعا پاخانہ میں داخل ہونے سے پہلے پڑھنی چاہئے،
اور اگر کوئی کھلی فضا میں قضائے حاجت کرنے جا رہا ہو تو رفع حاجت کے لیے بیٹھتے ہوئے کپڑا اٹھانے سے پہلے یہ دعا پڑھے۔
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 5