سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- کتاب: طہارت کے مسائل
4. باب كَرَاهِيَةِ اسْتِقْبَالِ الْقِبْلَةِ عِنْدَ قَضَاءِ الْحَاجَةِ
باب: قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا مکروہ ہے۔
حدیث نمبر: 11
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ فَارِسٍ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عِيسَى، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ ذَكْوَانَ، عَنْ مَرْوَانَ الأَصْفَرِ، قَالَ: رَأَيْتُ ابْنَ عُمَرَ أَنَاخَ رَاحِلَتَهُ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ، ثُمَّ جَلَسَ يَبُولُ إِلَيْهَا، فَقُلْتُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَلَيْسَ قَدْ نُهِيَ عَنْ هَذَا؟ قَالَ: بَلَى،" إِنَّمَا نُهِيَ عَنْ ذَلِكَ فِي الْفَضَاءِ، فَإِذَا كَانَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ شَيْءٌ يَسْتُرُكَ، فَلَا بَأْسَ".
مروان اصفر کہتے ہیں میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو دیکھا، انہوں نے قبلہ کی طرف اپنی سواری بٹھائی پھر بیٹھ کر اسی کی طرف رخ کر کے پیشاب کرنے لگے، میں نے پوچھا: ابوعبدالرحمٰن! (عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی کنیت ہے) کیا اس سے منع نہیں کیا گیا ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا: کیوں نہیں، اس سے صرف میدان میں روکا گیا ہے لیکن جب تمہارے اور قبلہ کے بیچ میں کوئی ایسی چیز ہو جو تمہارے لیے آڑ ہو تو کوئی حرج نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد به أبو داود، (تحفة الأشراف: 7451) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: گویا قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے وقت کھلی جگہ میں قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنا منع ہے البتہ ایسی جگہ جہاں قبلہ کی طرف سے کوئی چیز آڑ کا کام دے وہاں قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کر کے قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کرنے میں کوئی حرج نہیں، لیکن احتیاط کی بات یہی ہے کہ ہر جگہ قبلہ کا احترام ملحوظ رہے۔

قال الشيخ الألباني: حسن
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 11  
´قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف منہ کرنا مکروہ ہے`
«. . . إِنَّمَا نُهِيَ عَنْ ذَلِكَ فِي الْفَضَاءِ، فَإِذَا كَانَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ شَيْءٌ يَسْتُرُكَ، فَلَا بَأْسَ . . .»
. . . صرف میدان میں روکا گیا ہے لیکن جب تمہارے اور قبلہ کے بیچ میں کوئی ایسی چیز ہو جو تمہارے لیے آڑ ہو تو کوئی حرج نہیں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 11]
فوائد و مسائل
یہ روایت ضعیف ہے بشرط صحت یہ عمل ان حضرات کی دلیل ہے جو بند جگہ (یعنی بیت الخلاء) یا اوٹ میں قبلے کی طرف منہ یا پشت کرنے کو جائز سمجھتے ہیں۔ اور معروف فقہی قاعدہ ہے کہ جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح فرمان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل میں تعارض محسوس ہو وہاں امت کے لیے معتبر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہوا کرتا ہے، اس لیے یہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صریح فرمان اور فعل میں تعارض نہیں بلکہ آپ کا فعل آپ کے لیے خاص اور امت کے لیے وہی فرمان ہے جس کا بیان اوپر گزرا ہے۔ یا بقول امام شافعی رحمہ اللہ نہی عام ہے، البتہ گھروں یا تعمیر شدہ بیت الخلاؤں میں رخصت ہے اور بقول امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نہی تنزیہی ہے اور فعل بیان جواز کے لیے ہے۔ بہرحال احتیاط اسی میں ہے کہ پیشاب پاخانے کی حالت میں قبلے کی طرف منہ یا پشت نہ کی جائے۔ [نيل الاوطار، ج: 1 باب نهي المتخلي عن استقبال القبلة واستدبارها]
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 11