سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- کتاب: طہارت کے مسائل
5. باب الرُّخْصَةِ فِي ذَلِكَ
باب: قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے وقت قبلہ رخ ہونے کی رخصت کا بیان۔
حدیث نمبر: 12
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَمِّهِ وَاسِعِ بْنِ حَبَّانَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ:" لَقَدِ ارْتَقَيْتُ عَلَى ظَهْرِ الْبَيْتِ فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى لَبِنَتَيْنِ مُسْتَقْبِلَ بَيْتِ الْمَقْدِسِ لِحَاجَتِهِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ (ایک روز) میں (کسی ضرورت سے) گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو قضائے حاجت (پیشاب و پاخانہ) کے لیے دو اینٹوں پر اس طرح بیٹھے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ بیت المقدس کی طرف تھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الوضوء 12 (145)، 14 (149)، صحیح مسلم/الطھارة 17 (266)، سنن الترمذی/الطھارة 7 (11)، سنن النسائی/الطھارة 22 (23)، سنن ابن ماجہ/الطھارة 18 (322)، (تحفة الأشراف: 8552)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/القبلة 2 (3)، مسند احمد (2/12، 13)، سنن الدارمی/الطھارة 8 (694) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت: ۱؎: مدینہ منورہ سے بیت المقدس اترکی طرف واقع ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
  مولانا محمد ابوالقاسم سيف بنارسي حفظ الله، دفاع بخاري، تحت الحديث صحيح بخاري 148  
´گھروں میں قضائے حاجت کرنا ثابت ہے`
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، قَالَ،:" ارْتَقَيْتُ فَوْقَ ظَهْرِ بَيْتِ حَفْصَةَ لِبَعْضِ حَاجَتِي، فَرَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْضِي حَاجَتَهُ مُسْتَدْبِرَ الْقِبْلَةِ مُسْتَقْبِلَ الشَّأْمِ".»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ (ایک دن میں اپنی بہن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اہلیہ محترمہ) حفصہ رضی اللہ عنہا کے مکان کی چھت پر اپنی کسی ضرورت سے چڑھا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قضاء حاجت کرتے وقت قبلہ کی طرف پشت اور شام کی طرف منہ کئے ہوئے نظر آئے۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ: 148]

فقہ الحدیث
منکرین حدیث اس حدیث پر اعتراض کرتے ہیں:
اس حدیث کا مطلب ہے کہ آپ نے قبلہ کی طرف پشت کر کے قضائے حاجت کی تھی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان سے یہ امر نہایت مستبعد ہے کہ آپ قضائے حاجت کے وقت قبلہ کی طرف پشت کریں، خصوصا ایسی حالت میں کہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسروں کو قبلہ کی طرف پشت یا منہ کر کے قضائے حاجت کرنے سے منع کیا ہو، جیسا کہ اسی بخاری میں حدیث ہے یعنی جب تم قضائے حاجت کو آؤ، پس قبلہ کی طرف مت منہ کرو اور نہ اس کی طرف پیٹھ کرو۔
{أقول:} اس کی وجہ خود اسی حدیث سے نہایت ظاہر طور پر ثابت ہے، جس کا معترض نے اپنی کتاب کے صفحہ ۱۲ پر اقرار بھی کیا ہے کہ حدیث اول مکان کے واسطے ہے، کیونکہ مکان میں دیوار ہوتی ہے، جس سے پردہ اور آڑ ہو جاتا ہے، اور حدیث دوم میدان کے لیے ہے، کیونکہ وہاں کسی چیز کی آڑ نہیں ہوتی، آپ خواہ مخواہ اس کو غلط قرار دیتے ہیں، بحالیکہ امام بخاری رحمہ اللہ خود باب میں یہ استدلال کرتے ہیں: «إلا عند البناء جدار أو نحوه» یعنی جس حدیث میں ممانعت آئی ہے، اس سے مکان اور آڑ والی چیزیں مثلاً دیوار وغیرہ مستثنٰی ہیں، کیونکہ دوسری حدیث میں کوئی شئے «جدار» وغیرہ کی مخصص نہیں ہے، پس وہ میدان کے لیے ہو گی۔ ہاں آپ کا یہ قول عجیب ہے کہ میدان اور کعبہ کے بیچ میں بھی ہزاروں مکانات و پہاڑ وغیرہ حائل ہیں۔‏‏‏‏ یہ حائل ہونا کوئی مفید امر نہیں ہے، اس لیے کہ وہ ہزاروں مکانات اور پہاڑ اس شخص کے لئے آڑ نہیں ہو سکتے، بخلاف متصل دیوار کے کہ وہ آڑ اور سترہ ہے، لہٰذا مکان کے اندر جائز ہے اور یہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ و عروہ و ربیعہ و داود وغیرہ کا مذہب ہے اور مطلب بھی دونوں حدیثوں کا صاف اور اپنے محل میں بحال ہے۔
نیز اس حدیث پر مندرجہ ذیل ائمہ محدثین کی تبویبات سے بھی یہی قول راجح معلوم ہوتا ہے۔
➊ امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «باب لا تستقبل القبلة بغائط أو بول إلا عند البناء جدار أو نحوه .»
➋ امام ابوداود، امام ترمذی اور امام نسائی رحمہ اللہ علیہم نے بھی گھروں میں رخصت کے ابواب قائم کیے ہیں۔
➌ امام الائمہ ابن خزیمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «باب ذكر الخبر المفسر للخبرين اللذين ذكرتهما فى البابين المتقدمين والدليل على ذلك أن النبى صلى الله عليه وسلم إنما نهى عن استقبال القبلة واستدبارها عند الغائط والبول فى الصحارى والمواضع التى لا سترة فيها، وأن الرخصة فى ذلك فى الكنف والمواضع التى فيها بين المتغوط والبائل وبين القبلة حائط أو سترة.»
➍ امام ابن حبان رحمہ اللہ فرماتے ہیں: «ذكر الخبر الدال على أن الزجر عن استقبال القبلة واستدبارها بالغائط والبول إنما زجر عن ذلك فى الصحارى دون الكنف والمواضع المستورة.»
   دفاع صحیح بخاری، حدیث/صفحہ نمبر: 125   
  حافظ عمران ايوب لاهوري حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري 145  
´اس بارے میں کہ کوئی شخص دو اینٹوں پر بیٹھ کر قضائے حاجت کرے (تو کیا حکم ہے؟) `
«. . . عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: إِنَّ نَاسًا، يَقُولُونَ: إِذَا قَعَدْتَ عَلَى حَاجَتِكَ فَلَا تَسْتَقْبِلِ الْقِبْلَةَ . . .»
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں، وہ فرماتے تھے کہ لوگ کہتے تھے کہ جب قضاء حاجت کے لیے بیٹھو تو نہ قبلہ کی طرف منہ کرو نہ بیت المقدس کی طرف . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/بَابُ مَنْ تَبَرَّزَ عَلَى لَبِنَتَيْنِ: 145]

تخريج الحديث:
[150۔ البخاري فى: 4 كتاب الوضو: 12 باب من تبرز على لبنتين 145، مسلم 266، ترمذي 11]
لغوی توضیح:
«ارْتَقَيْتُ» میں چڑھا۔
«لَبِنَتَيْن» کی واحد «لَبِنَة» ہے، معنی ہے اینٹ۔
   جواہر الایمان شرح الولووالمرجان، حدیث/صفحہ نمبر: 150   
  فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 23  
´قضائے حاجت کے وقت گھروں میں قبلہ کی جانب منہ یا پیٹھ کرنے کی رخصت۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا، تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دو کچی اینٹوں پر قضائے حاجت کے لیے بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے بیٹھے دیکھا ۱؎۔ [سنن نسائي/ذكر الفطرة/حدیث: 23]
23۔ اردو حاشیہ:
گھر سے مراد حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی ہمشیرہ ام المؤمنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کا حجرۂ مبارکہ ہے۔
➋ بیت المقدس مدینہ منورہ سے شمال کی جانب ہے، یعنی مکہ مکرمہ سے بالکل الٹ جانب، لہٰذا آپ کی پیٹھ قبلے کی جانب تھی۔
➌ اس روایت سے امام شافعی رحمہ اللہ اور دوسرے محدثین نے استدلال کیا ہے کہ عمارت کے اندر قبلے کی طرف منہ یا پیٹھ کرنا جائز ہے ورنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح نہ بیٹھتے اور یہ بہترین تطبیق ہے جس سے تمام روایات قابل عمل ٹھہرتی ہیں، بجائے اس کے کہ کسی روایت کو منسوخ کہا جائے یا آپ کا خاصہ قرار دیا جائے، نیز خود حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی مطلب منقول ہے۔ دیکھیے: [سنن أبي داود، الطھارۃ، حدیث: 11]
البتہ احتیاط، یعنی چاردیواری کے اندر بھی بچنا بہتر ہے۔
   سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 23   
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث322  
´صحراء و میدان کے علاوہ پاخانہ میں قبلہ کی طرف منہ یا پیٹھ کرنے کی رخصت کا بیان۔`
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ لوگ کہتے ہیں کہ جب تم قضائے حاجت کے لیے بیٹھو تو قبلہ رو ہو کر نہ بیٹھو، حالانکہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ دو کچی اینٹوں پر قضائے حاجت کے لیے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے بیٹھے ہیں۔ ابن ماجہ کہتے ہیں: یہ یزید بن ہارون کی حدیث ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 322]
اردو حاشہ:
(1)
یہ گھر ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کی رہائش گاہ تھا جو راوی حدیث حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ کی ہمشیرہ تھیں۔ دیکھیے: (صحیح البخاری، الوضوء، باب التبرز فی البیوت، حدیث: 148)
بہن کا گھر ہونے کی وجہ سے حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا گھر کہہ دیا۔

(2)
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کے رسول اللہ ﷺ کو دیکھنے کا یہ مطلب نہیں کہ انھوں نے نبی ﷺ کو بے پردہ دیکھا۔
بات یہ ہے کہ بیت الخلاء کی دیوار چھوٹی ہونے کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کا سر مبارک نظر آیا جس سے معلوم ہوا کہ آپ کی پشت کعبہ شریف کی طرف اور چہرہ مبارک بیت المقدس کی طرف ہے۔
کچی اینٹوں کا آپ کو پہلے سے علم تھا کہ یہاں بیٹھنے کے لیے کچی اینٹیں رکھی ہوئی ہیں۔ دیکھیے: (فتح الباری: 325/1)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 322   
  الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 11  
´قبلہ کی طرف منہ کر کے پیشاب یا پاخانہ کرنے کی رخصت​۔`
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ ایک روز میں (اپنی بہن) حفصہ رضی الله عنہا کے گھر کی چھت پر چڑھا تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ شام کی طرف منہ اور کعبہ کی طرف پیٹھ کر کے قضائے حاجت فرما رہے ہیں ۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الطهارة/حدیث: 11]
اردو حاشہ:
1؎:
احتمال یہ ہے کہ نبی اکرم ﷺ کا یہ فعل خاص آپ کے لیے کسی عذر کی بنا پر تھا اور اُمّت کے لیے خاص حکم کے ساتھ آپ ﷺ کا یہ فعل قطعاً معارض ہے،
اور پھر یہ کہ آپ اوٹ تھے۔
(تحفۃ الأحوذی: 22/1،
ونیل الأوطارللشوکانی)
   سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 11   
  0  
´بیٹھ کر پیشاب کرنا`
. . . عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے خبر دی، وہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں اپنے گھر کی چھت پر چڑھا، تو مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو اینٹوں پر (قضاء حاجت کے وقت) بیت المقدس کی طرف منہ کئے ہوئے نظر آئے۔ . . . [صحيح البخاري/كِتَاب الْوُضُوءِ/ بَابُ التَّبَرُّزِ فِي الْبُيُوتِ:/ ح: 149]
فوائد و مسائل
تبصرہ:
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: «فرأيت رسول الله صلى الله عليه وسلم قاعدًا عليٰ لبنتين، مستقبل بيت المقدس» پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا، آپ دو اینٹوں پر (قضائے حاجت فرماتے ہوئے) بیت المقدس کی طرف رخ کئے ہوئے بیٹھے تھے۔
[صحيح بخاري ج ۱ص ۲۷ ح ۱۴۹، ارشاد القاري للقسطلاني ج ۱ص ۲۳۸]
تنبیہ (۱):
اگر کوئی یہ کہے کہقضائے حاجت میں صرف بڑا پیشاب ہی ہوتا ہے چھوٹا پیشاب نہیں ہوتا تو یہ قول بلا دلیل اور مردود ہے۔
تنبیہ (۲):
اہل حدیث کے نزدیک صحیح و حسن لذاتہ حدیث حجت اور معیارِ حق ہے، چاہے صحیح بخاری میں ہو یا صحیح مسلم میں یا حدیث کی کسی بھی معتبر و مستند کتاب میں۔ اہل حدیث کا قطعاً یہ دعویٰ نہیں ہے کہ صرف صحیح بخاری و صحیح مسلم کی احادیث ہی حجت ہیں۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی بیان کردہ ایک حدیث کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو کر پیشاب نہیں کرتے تھے۔
[السنن الكبريٰ للبيهقي ۱/۱۰۲ و سنده حسن]
ایک روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کرنے سے اشارتاً منع فرمایا۔ ديكهئے:
[كشف الاستار ۱/۲۶۶ ح ۵۴۷ و سنده حسن]
معلوم ہوا کہ پیشاب بیٹھ کر ہی کرنا چاہئے اور کھڑے ہو کر پیشاب کرنا منسوخ ہے یا حالتِ عذر میں جواز پر محمول ہے۔
   مذید تشریحات، حدیث/صفحہ نمبر: 0