سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- کتاب: طہارت کے مسائل
29. باب السِّوَاكِ مِنَ الْفِطْرَةِ
باب: مسواک دین فطرت ہے۔
حدیث نمبر: 54
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، وَدَاوُدُ بْنُ شَبِيبٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، قَالَ مُوسَى،عَنْ أَبِيهِ، قَالَ دَاوُدُ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ مِنَ الْفِطْرَةِ الْمَضْمَضَةَ وَالِاسْتِنْشَاقَ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ إِعْفَاءَ اللِّحْيَةِ وَزَادَ وَالْخِتَانَ، قَالَ: وَالِانْتِضَاحَ، وَلَمْ يَذْكُرِ انْتِقَاصَ الْمَاءِ يَعْنِي الِاسْتِنْجَاءَ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرُوِيَ نَحْوُهُ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَقَالَ: خَمْسٌ كُلُّهَا فِي الرَّأْسِ، وَذَكَرَ فِيهَا الْفَرْقَ وَلَمْ يَذْكُرْ إِعْفَاءَ اللِّحْيَةِ، قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرُوِيَ نَحْوُ حَدِيثِ حَمَّادٍ، عَنْ طَلْقِ بْنِ حَبِيبٍ، وَمُجَاهِدٍ، وَعَنْ بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْمُزَنِيِّ، قَوْلُهُمْ وَلَمْ يَذْكُرُوا إِعْفَاءَ اللِّحْيَةِ. وَفِي حَدِيثِ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فِيهِ وَإِعْفَاءُ اللِّحْيَةِ، وَعَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، نَحْوُهُ، وَذَكَرَ إِعْفَاءَ اللِّحْيَةِ وَالْخِتَانَ.
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فطرت میں سے ہے، پھر انہوں نے اسی جیسی حدیث ذکر کی، داڑھی چھوڑنے کا ذکر نہیں کیا، اس میں ختنہ کا اضافہ کیا ہے، نیز اس میں استنجاء کے بعد لنگی پر پانی چھڑکنے کا ذکر ہے، اور پانی سے استنجاء کرنے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسی طرح کی روایت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی مروی ہے، جس میں پانچ چیزیں ہیں ان میں سب کا تعلق سر سے ہے، اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سر میں مانگ نکالنے کا ذکر کیا ہے، اور داڑھی چھوڑنے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: حماد کی حدیث کی طرح طلق بن حبیب، مجاہد اور بکر بن عبداللہ المزنی سے ان سب کا اپنا قول مروی ہے، اس میں ان لوگوں نے بھی داڑھی چھوڑنے کا ذکر نہیں کیا ہے۔ اور محمد بن عبداللہ بن مریم کی روایت جسے انہوں نے ابوسلمہ سے، ابوسلمہ نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے، ابوہریرہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے، اس میں داڑھی چھوڑنے کا ذکر ہے۔ ابراہیم نخعی سے بھی اسی جیسی روایت مروی ہے اس میں انہوں نے داڑھی چھوڑنے اور ختنہ کرنے کا ذکر کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏حدیث محمد بن عبداللہ ابن مریم تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 15003، 10350)، وحدیث موسی بن إسماعیل قد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الطھارة 8 (294)، مسند احمد (4/264) (حسن)» ‏‏‏‏ (ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کی گذشتہ حدیث سے تقویت پا کر یہ حدیث حسن ہے، ورنہ خود اس کے اندر دو علتیں ہیں: اس کا راوی ”علی بن جدعان“ ضعیف ہے اور سلمہ نے عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ سے حدیث نہیں سنی ہے، اور موسیٰ کی روایت کے مطابق تو اس کے اندر ارسال کی علت بھی ہے)
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث294  
´امور فطرت کا بیان۔`
عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کلی کرنا، ناک میں پانی ڈالنا، مسواک کرنا، مونچھ کاٹنا، ناخن کاٹنا، بغل کے بال اکھیڑنا، ناف کے نیچے کا بال صاف کرنا، انگلیوں کے جوڑوں کو دھونا، اور وضو کے بعد شرمگاہ پر پانی کا چھینٹا مارنا، اور ختنہ کرانا فطرت میں سے ہیں۔‏‏‏‏ [سنن ابن ماجه/كتاب الطهارة وسننها/حدیث: 294]
اردو حاشہ:
چھینٹے مارنا یعنی وضو کے بعد ازار پر پانی کے چھینٹے ڈالنا۔
اس کی حکمت بظاہر عدم  طهارت کے وسوسے کا ازالہ ہے۔
واللہ أعلم-
یہ روایت صحیح روایات کے ہم معنی ہے اس لیے محققین نے اسے حسن یا صحیح لغیرہ قرار دیا ہے۔ دیکھیے: (الموسوعة الحديثية: 3؍268)
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 294   
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 54  
´باب: مسواک دین فطرت ہے۔`
«. . . عَنْ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: إِنَّ مِنَ الْفِطْرَةِ الْمَضْمَضَةَ وَالِاسْتِنْشَاقَ . . .»
. . . عمار بن یاسر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کلی کرنا اور ناک میں پانی ڈالنا فطرت میں سے ہے . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ/باب السِّوَاكِ مِنَ الْفِطْرَةِ: 54]
فوائد ومسائل:
یہ حدیث [54] ضعیف ہے، تاہم حدیث سنن ابی داود حدیث [52] اسی مفہوم کی حامل ہے۔ اسی لیے بعض کے نزدیک یہ صحیح ہے۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 54