سنن ابي داود
كِتَاب الطَّهَارَةِ -- کتاب: طہارت کے مسائل
50. باب صِفَةِ وُضُوءِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم
باب: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا بیان۔
حدیث نمبر: 110
حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ عَامِرِ بْنِ شَقِيقِ بْنِ جَمْرَةَ، عَنْ شَقِيقِ بْنِ سَلَمَةَ، قَالَ: رَأَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ،" غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا وَمَسَحَ رَأْسَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ هَذَا"، قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ وَكِيعٌ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، قَالَ: تَوَضَّأَ ثَلَاثًا فَقَطْ.
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو میں اپنے دونوں ہاتھ تین تین بار دھوئے اور تین بار سر کا مسح کیا پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: وکیع (وکیع بن جراح) نے اسے اسرائیل سے روایت کیا ہے اس میں صرف «توضأ ثلاثا» ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبله، (تحفة الأشراف: 9810) (منکر)» ‏‏‏‏ (کیونکہ اس کا راوی ”عامر“ ضعیف ہے، نیز اس نے ”سر کے تین بار مسح“ کے الفاظ میں ثقہ راویوں کی مخالفت کی ہے)

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
  الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث سنن ابي داود 110  
´سر کا مسح`
«. . . رَأَيْتُ عُثْمَانَ بْنَ عَفَّانَ،" غَسَلَ ذِرَاعَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا وَمَسَحَ رَأْسَهُ ثَلَاثًا، ثُمَّ قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ هَذَا . . .»
. . . بووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے وضو میں اپنے دونوں ہاتھ تین تین بار دھوئے اور تین بار سر کا مسح کیا پھر کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے ہوئے دیکھا . . . [سنن ابي داود/كِتَاب الطَّهَارَةِ: 110]
فوائد و مسائل:
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل مسح ایک بار کا ہے جیسے کہ اکثر احادیث سے ثابت ہوتا ہے، ممکن ہے بعض مواقع پر تین بار بھی کیا ہو، یا اجمالاً تین بار کا ذکر کرنے سے راوی نے سر کو بھی شامل سمجھ لیا ہو۔
   سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 110