صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
9. بَابُ الصَّدَقَةِ قَبْلَ الرَّدِّ:
باب: صدقہ اس زمانے سے پہلے کہ اس کا لینے والا کوئی باقی نہ رہے گا۔
حدیث نمبر: 1413
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ النَّبِيلُ، أَخْبَرَنَا سَعْدَانُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو مُجَاهِدٍ، حَدَّثَنَا مُحِلُّ بْنُ خَلِيفَةَ الطَّائِيُّ، قَالَ:سَمِعْتُ عَدِيَّ بْنَ حَاتِمٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , يَقُولُ:" كُنْتُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَجَاءَهُ رَجُلَانِ أَحَدُهُمَا يَشْكُو الْعَيْلَةَ وَالْآخَرُ يَشْكُو قَطْعَ السَّبِيلِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَّا قَطْعُ السَّبِيلِ فَإِنَّهُ لَا يَأْتِي عَلَيْكَ إِلَّا قَلِيلٌ حَتَّى تَخْرُجَ الْعِيرُ إِلَى مَكَّةَ بِغَيْرِ خَفِيرٍ، وَأَمَّا الْعَيْلَةُ فَإِنَّ السَّاعَةَ لَا تَقُومُ حَتَّى يَطُوفَ أَحَدُكُمْ بِصَدَقَتِهِ لَا يَجِدُ مَنْ يَقْبَلُهَا مِنْهُ، ثُمَّ لَيَقِفَنَّ أَحَدُكُمْ بَيْنَ يَدَيِ اللَّهِ لَيْسَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُ حِجَابٌ وَلَا تَرْجُمَانٌ يُتَرْجِمُ لَهُ، ثُمَّ لَيَقُولَنَّ لَهُ أَلَمْ أُوتِكَ مَالًا فَلَيَقُولَنَّ بَلَى، ثُمَّ لَيَقُولَنَّ أَلَمْ أُرْسِلْ إِلَيْكَ رَسُولًا فَلَيَقُولَنَّ بَلَى، فَيَنْظُرُ عَنْ يَمِينِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ، ثُمَّ يَنْظُرُ عَنْ شِمَالِهِ فَلَا يَرَى إِلَّا النَّارَ، فَلْيَتَّقِيَنَّ أَحَدُكُمُ النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ فَبِكَلِمَةٍ طَيِّبَةٍ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوعاصم نبیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہمیں سعدان بن بشیر نے خبر دی ‘ کہا کہ ہم سے ابومجاہد سعد طائی نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے محل بن خلیفہ طائی نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے عدی بن حاتم طائی رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں موجود تھا کہ دو شخص آئے ‘ ایک فقر و فاقہ کی شکایت لیے ہوئے تھا اور دوسرے کو راستوں کے غیر محفوظ ہونے کی شکایت تھی۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جہاں تک راستوں کے غیر محفوظ ہونے کا تعلق ہے تو بہت جلد ایسا زمانہ آنے والا ہے کہ جب ایک قافلہ مکہ سے کسی محافظ کے بغیر نکلے گا۔ (اور اسے راستے میں کوئی خطرہ نہ ہو گا) اور رہا فقر و فاقہ تو قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک (مال و دولت کی کثرت کی وجہ سے یہ حال نہ ہو جائے کہ) ایک شخص اپنا صدقہ لے کر تلاش کرے لیکن کوئی اسے لینے والا نہ ملے۔ پھر اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی پردہ نہ ہو گا اور نہ ترجمانی کے لیے کوئی ترجمان ہو گا۔ پھر اللہ تعالیٰ اس سے پوچھے گا کہ کیا میں نے تجھے دنیا میں مال نہیں دیا تھا؟ وہ کہے گا کہ ہاں دیا تھا۔ پھر اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ کیا میں نے تیرے پاس پیغمبر نہیں بھیجا تھا؟ وہ کہے گا کہ ہاں بھیجا تھا۔ پھر وہ شخص اپنے دائیں طرف دیکھے گا تو آگ کے سوا اور کچھ نظر نہیں آئے گا پھر بائیں طرف دیکھے گا اور ادھر بھی آگ ہی آگ ہو گی۔ پس تمہیں جہنم سے ڈرنا چاہیے خواہ ایک کھجور کے ٹکڑے ہی (کا صدقہ کر کے اس سے اپنا بچاؤ کر سکو) اگر یہ بھی میسر نہ آ سکے تو اچھی بات ہی منہ سے نکالے۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1413  
1413. حضرت عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا، اس دوران میں دوآدمی آئے۔ ایک نے غربت و تنگ دستی کا شکوہ کیا اور دوسرےنے چوری اور ڈاکہ زنی کی شکایت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:راستے کی بدامنی کے متعلق تو تھوڑی مدت گزرے گی کہ مکہ تک ایک قافلہ بغیر کسی محافظ کے جائے گا، باقی رہی تنگ دستی تو قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم میں سے ایک اپنا صدقہ لے کر پھرے گا مگر اسے قبول کرنے والا نہیں ملے گا، پھر (قیامت کے دن) تم میں سے ہر شخص اللہ کے سامنے کھڑا ہوگا جبکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوگا اور نہ کوئی ترجمان ہی ہوگا جو اس کی گفتگونقل کرے، بلاشبہ پھر اللہ اس سے فرمائے گا:کیا میں نے تجھے مال نہ دیا تھا؟وہ عرض کرے گا: کیوں نہیں! پھر اللہ فرمائے گا:کیا میں نے تیرے پاس ایک عظیم پیغمبرنہیں بھیجا تھا؟ وہ عرض کرے گا:کیوں نہیں!پھر وہ اپنی دائیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1413]
حدیث حاشیہ:
یہ بھی ایک بڑا صدقہ ہے یعنی اگرخیرات نہ دے تو اس کو نرمی سے ہی جواب دے کہ اس وقت میں مجبور ہوں‘ معاف کرو‘ گھر کنا جھگڑنا منع ہے۔
ترجمان وہ ہے جو ترجمہ کرکے بندے کا کلام اللہ سے عرض کرے اور اللہ کا ارشاد بندے کو سنائے بلکہ خود اللہ پاک کلام فرمائے گا۔
اس حدیث سے ان لوگوں کا رد ہوا جو کہتے ہیں کہ اللہ کے کلام میں آواز اور حروف نہیں‘ اگر آواز اور حروف نہ ہوں تو بندہ سنے گا کیسے اور سمجھے گا کیسے؟ (وحیدی)
اس حدیث میں یہ پیش گوئی بھی ہے کہ ایک دن عرب میں امن وامان عام ہوگا‘ چور ڈاکو عام طورپر ختم ہوجائیں گے‘ یہاں تک کہ قافلے مکہ شریف سے (خفیر)
کے بغیر نکلا کریں گے۔
خفیر اس شخص کو کہا جاتا تھا جو عرب میں ہر ہر قبیلہ سے قافلہ کے ساتھ سفر کرکے اپنے قبیلہ کی سرحد امن وعافیت کے ساتھ پار کرا دیتا تھا وہ راستہ بھی بتلاتا اور لوٹ مار کرنے والوں سے بھی بچاتا تھا۔
آج اس چودھویں صدی میں حکومت عربیہ سعودیہ نے حرمین شریف کو امن کا اس قدر گہوارہ بنا دیا ہے کہ مجال نہیں کوئی کسی پر دست اندازی کرسکے۔
اللہ پاک اس حکومت کو قائم دائم رکھے اور حاسدین ومعاندین کے اوپر اس کو ہمیشہ غلبہ عطا فرمائے۔
(آمین)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1413   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1413  
1413. حضرت عدی بن حاتم ؓ سے روایت ہے،انھوں نے فرمایا: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس موجود تھا، اس دوران میں دوآدمی آئے۔ ایک نے غربت و تنگ دستی کا شکوہ کیا اور دوسرےنے چوری اور ڈاکہ زنی کی شکایت کی تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:راستے کی بدامنی کے متعلق تو تھوڑی مدت گزرے گی کہ مکہ تک ایک قافلہ بغیر کسی محافظ کے جائے گا، باقی رہی تنگ دستی تو قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی یہاں تک کہ تم میں سے ایک اپنا صدقہ لے کر پھرے گا مگر اسے قبول کرنے والا نہیں ملے گا، پھر (قیامت کے دن) تم میں سے ہر شخص اللہ کے سامنے کھڑا ہوگا جبکہ اس کے اور اللہ کے درمیان کوئی پردہ حائل نہیں ہوگا اور نہ کوئی ترجمان ہی ہوگا جو اس کی گفتگونقل کرے، بلاشبہ پھر اللہ اس سے فرمائے گا:کیا میں نے تجھے مال نہ دیا تھا؟وہ عرض کرے گا: کیوں نہیں! پھر اللہ فرمائے گا:کیا میں نے تیرے پاس ایک عظیم پیغمبرنہیں بھیجا تھا؟ وہ عرض کرے گا:کیوں نہیں!پھر وہ اپنی دائیں۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1413]
حدیث حاشیہ:
(1)
اس حدیث میں بیان ہوا ہے کہ آدمی اپنا صدقہ لے کر نکلے گا، لیکن اسے کوئی قبول کرنے والا نہیں ملے گا، ایسے حالات قربِ قیامت کے وقت پیش آئیں گے، کیونکہ مذکورہ حدیث کی ایک روایت سے ایسا اشارہ ملتا ہے کہ مال و دولت کی فراوانی حضرت عدی بن حاتم کی زندگی میں نہیں ہوئی، آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری زندگی ہوئی تو تم رسول اللہ ﷺ کے اس فرمان کی تصدیق خود ملاحظہ کرو گے۔
(صحیح البخاري، المناقب، حدیث: 3595)
کیونکہ ان کی وفات حضرت معاویہ ؓ کے دور حکومت میں ہوئی جو کہ فتوحات کا دور تھا۔
محدث ابن التین فرماتے ہیں کہ یہ دور حضرت عیسیٰ ؑ کے نزول کے بعد ہو گا جبکہ روئے زمین پر کوئی کافر نہیں ہو گا اور زمین کی برکات کا یہ عالم ہو گا کہ ایک انار سے پورا کنبہ سیر ہو جائے گا۔
(فتح الباری: 356/3) (2)
امام بیہقی ؒ نے اسے حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کے دور خلافت پر محمول کیا ہے جن کا دور صرف تیس ماہ کا تھا اور اس دور میں لوگ اس قدر مال دار ہو گئے تھے کہ کوئی صدقہ لینے والا نہیں ملتا تھا۔
(دلائل النبوة للبیھقي، با ب ما جاء في إخبارہ صلی اللہ علیه وسلم بالشرالذي یکون بعدالخیر۔
۔
۔
۔
۔
۔
493/6)

لیکن قرب قیامت کا قول زیادہ راجح معلوم ہوتا ہے، کیونکہ حضرت عدی بن حاتم نے فرمایا تھا کہ اگر تمہاری زندگی طویل ہوئی تو تم اسے دیکھ لو گے، اس سے قریب قیامت کے راجح ہونے کا اشارہ ملتا ہے۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1413