صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
10. بَابُ اتَّقُوا النَّارَ وَلَوْ بِشِقِّ تَمْرَةٍ:
باب: اس بارے میں کہ جہنم کی آگ سے بچو خواہ کھجور کے ایک ٹکڑے یا کسی معمولی سے صدقہ کے ذریعے ہو۔
حدیث نمبر: 1416
حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ يَحْيَى، حَدَّثَنَا أَبِي، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ شَقِيقٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الْأَنْصَارِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , قَالَ:" كَان رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَرَنَا بِالصَّدَقَةِ انْطَلَقَ أَحَدُنَا إِلَى السُّوقِ فَتَحَامَلَ فَيُصِيبُ الْمُدَّ، وَإِنَّ لِبَعْضِهِمُ الْيَوْمَ لَمِائَةَ أَلْفٍ".
ہم سے سعید بن یحییٰ نے بیان کیا، کہا مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے شقیق نے اور ان سے ابومسعود انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہمیں صدقہ کرنے کا حکم دیا تو ہم میں سے بہت سے بازار جا کر بوجھ اٹھانے کی مزدوری کرتے اور اس طرح ایک مد (غلہ یا کھجور وغیرہ) حاصل کرتے۔ (جسے صدقہ کر دیتے) لیکن آج ہم میں سے بہت سوں کے پاس لاکھ لاکھ (درہم یا دینار) موجود ہیں۔
  مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث4155  
´نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی معیشت کا بیان۔`
ابومسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ و خیرات کا حکم دیتے تو ہم میں سے ایک شخص حمالی کرنے جاتا، یہاں تک کہ ایک مد کما کر لاتا، (اور صدقہ کر دیتا) اور آج ان میں سے ایک کے پاس ایک لاکھ نقد موجود ہے، ابووائل شقیق کہتے ہیں: گویا کہ وہ اپنی ہی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الزهد/حدیث: 4155]
اردو حاشہ:
فوائد و مسائل:
(1)
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سخاوت کے اعلی مقام پر فائز تھے کہ خود امداد کے مستحق ہونے کے باوجود امداد قبول نہیں کرتے تھے بلکہ اس مفلسی میں بھی محنت مزدوری کر کے خیرات کرتے تھے۔

(2)
صحابہ کرام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی تعمیل کے لیے ہر ممکن کوشش کرتے تھے حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی کو نام لے کر حکم نہیں دیتے تھے کہ خیرات کرو۔
تب بھی ان کی کوشش ہوتی تھی کہ ہم بھی اس کی تعمیل کرنے والوں میں شامل ہوجائیں۔

(3)
فی سبیل اللہ خرچ کرنے کا اچھا بدلہ دنیا میں بھی خوشحالی کی صورت میں مل جاتا ہے۔

(4)
حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنےحالات بیان فرمائے لیکن یہ وضاحت نہیں فرمائی کہ یہ اپنا واقعہ ہے تاکہ یہ ریاکاری میں شامل نہ ہوجائے جب کہ ان کا مقصد سامعین کو اس نیکی کی ترغیب دلانا تھا اس سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کا اخلاص واضح ہے۔
   سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 4155   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1416  
1416. حضرت ابو مسعود انصاری ؓ ہی سے روایت ہے، انھوں نے فرمایا: جب رسول اللہ ﷺ ہمیں صدقے کا حکم دیتے تو ہم میں سے کوئی بازار جاتا اور بوجھ اٹھا کر مزدوری کرتا، اجرت میں جو ایک مدملتا اسے صدقہ کردیتا، مگر آج یہ حالت ہے کہ بعض انھی لوگوں کے پاس ایک لاکھ درہم موجود ہیں۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1416]
حدیث حاشیہ:
(1)
حضرت ابو مسعود انصاری ؓ ایک جلیل القدر بدری صحابی ہیں۔
ان کی وفات 40 ہجری سے پہلے ہے۔
انہوں نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کے دور میں مال کی قلت تھی لیکن سخاوت کا بہت شوق تھا۔
صحابہ کرام ؓ محنت مزدوری کرتے۔
اس پر جو اجرت ملتی اسے صدقہ و خیرات کر دیتے تھے۔
لیکن بعد میں فتوحات کی کثرت سے مال و دولت کی فراوانی ہوئی تو بخل پیدا ہونے لگا، مال کی کمی نہیں تھی، لیکن دل میں غنا نہیں رہا۔
بہرحال صحابہ کرام ؓ کا محنت و مزدوری کر کے ایک مد اللہ کی راہ میں خرچ کرنا ہمارے ہزاروں اور لاکھوں روپوں سے زیادہ اجر رکھتا ہے۔
(فتح الباري: 359/3) (2)
واضح رہے کہ عنوان میں دو مضمون ہیں:
ایک یہ کہ تھوڑے سے صدقہ و خیرات سے دوزخ کی آگ سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔
احادیث بالا میں اسی مضمون کو ثابت کیا گیا ہے۔
دوسرا مضمون کھجور کا ٹکڑا دے کر نجات حاصل کرنا ہے، اس کے لیے آئندہ احادیث پیش کی جا رہی ہیں۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1416