صحيح البخاري
كِتَاب الزَّكَاة -- کتاب: زکوۃ کے مسائل کا بیان
11M. بَابٌ:
باب:۔۔۔
حدیث نمبر: 1420
حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا،" أَنَّ بَعْضَ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْنَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَيُّنَا أَسْرَعُ بِكَ لُحُوقًا؟ قَالَ: أَطْوَلُكُنَّ يَدًا، فَأَخَذُوا قَصَبَةً يَذْرَعُونَهَا فَكَانَتْ سَوْدَةُ أَطْوَلَهُنَّ يَدًا، فَعَلِمْنَا بَعْدُ أَنَّمَا كَانَتْ طُولَ يَدِهَا الصَّدَقَةُ، وَكَانَتْ أَسْرَعَنَا لُحُوقًا بِهِ، وَكَانَتْ تُحِبُّ الصَّدَقَةَ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے ابوعوانہ وضاح یشکری نے بیان کیا ‘ ان سے فراس بن یحییٰ نے ان سے شعبی نے، ان سے مسروق نے اور ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ سب سے پہلے ہم میں آخرت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کون جا کر ملے گی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا ہاتھ سب سے زیادہ لمبا ہو گا۔ اب ہم نے لکڑی سے ناپنا شروع کر دیا تو سودہ رضی اللہ عنہا سب سے لمبے ہاتھ والی نکلیں۔ ہم نے بعد میں سمجھا کہ لمبے ہاتھ والی ہونے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مراد صدقہ زیادہ کرنے والی سے تھی۔ اور سودہ رضی اللہ عنہا ہم سب سے پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جا کر ملیں ‘ صدقہ کرنا آپ رضی اللہ عنہا کو بہت محبوب تھا۔
  مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1420  
1420. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی کچھ بیویوں نے آپ سے عرض کیا:وفات کے بعد ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ کو ملے گی؟آپ نےفرمایا:جس کا ہاتھ تم سب میں لمبا ہے۔ چنانچہ انھوں نے چھڑی لے کر اپنے ہاتھ ناپنے شروع کردیے توحضرت سودہ ؓ کا ہاتھ سب سے بڑا نکلا (مگر سب سے پہلے حضرت زینب بنت جحش ؓ کی وفات ہوئی۔) تب ہم لوگوں نے سمجھ لیا کہ ہاتھ کی لمبائی سے مراد خیرات کرنا تھا، چنانچہ وہ (حضرت زینب ؓ) ہم سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے جاملیں۔ انھیں صدقہ دینے کا بہت شوق تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1420]
حدیث حاشیہ:
اکثر علماء نے کہا کے طول یدها اور کانت کی ضمیروں میں سے حضرت زینب مراد ہیں مگر ان کا ذکر اس روایت میں نہیں ہے۔
کیونکہ اس امر سے اتفاق ہے کہ آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد بیویوں میں سے سب سے پہلے حضرت زینب کا ہی انتقال ہوا تھا۔
لیکن امام بخاری نے تاریخ میں جو روایت کی ہے اس میں ام المؤمنین حضرت سودہ ؓ کی صراحت ہے اور یہاں بھی اس روایت میں حضرت سودہ کا نام آیا ہے اور یہ مشکل ہے اور ممکن ہے یوں جواب دینا کہ جس جلسہ میں یہ سوال آنحضرت ﷺ سے ہوا تھا وہاں حضرت زینب موجود نہ ہوں اور جتنی بیویاں وہاں موجود تھیں‘ ان سب سے پہلے حضرت سودہ ؓ کا انتقال ہوا۔
مگر ابن حبان کی روایت میں یوں ہے کہ اس وقت آپ کی سب بیویاں موجود تھیں‘ کوئی باقی نہ رہی تھی‘ اس حالت میں یہ احتمال بھی نہیں چل سکتا۔
چنانچہ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں۔
قَالَ لَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُمَرَ يَعْنِي الْوَاقِدِيَّ هَذَا الْحَدِيثُ وُهِلَ فِي سَوْدَةَ وَإِنَّمَا هُوَ فِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ فَهِيَ أَوَّلُ نِسَائِهِ بِهِ لُحُوقًا وَتُوُفِّيَتْ فِي خِلَافَةِ عُمَرَ وَبَقِيَتْ سَوْدَةُ إِلَى أَنْ تُوُفِّيَتْ فِي خِلَافَةِ مُعَاوِيَةَ فِي شَوَّالٍ سَنَةَ أَرْبَعٍ وَخَمْسِينَ قَالَ بن بَطَّالٍ هَذَا الْحَدِيثُ سَقَطَ مِنْهُ ذِكْرُ زَيْنَبَ لِاتِّفَاقِ أَهْلِ السِّيَرِ عَلَى أَنَّ زَيْنَبَ أَوَّلُ مَنْ مَاتَ مِنْ أَزْوَاجِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْنِي أَنَّ الصَّوَابَ وَكَانَتْ زَيْنَبُ أَسْرَعَنَا إِلَخْ وَلَكِنْ يُعَكِّرُ عَلَى هَذَا التَّأْوِيلِ تِلْكَ الرِّوَايَاتُ الْمُتَقَدِّمَةُ الْمُصَرَّحُ فِيهَا بِأَنَّ الضَّمِيرَ لِسَوْدَةَ وَقَرَأْتُ بِخَطِّ الْحَافِظِ أَبِي عَلِيٍّ الصَّدَفِيِّ ظَاهِرُ هَذَا اللَّفْظِ أَنَّ سَوْدَةَ كَانْتَ أَسْرَعَ وَهُوَ خِلَافُ الْمَعْرُوفِ عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ أَنَّ زَيْنَبَ أَوَّلُ مَنْ مَاتَ مِنَ الْأَزْوَاجِ ثُمَّ نَقَلَهُ عَنْ مَالِكٍ مِنْ رِوَايَتِهِ عَنِ الْوَاقِدِيِّ قَالَ وَيُقَوِّيهِ رِوَايَةُ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ وَقَالَ بن الْجَوْزِيِّ هَذَا الْحَدِيثُ غَلَطٌ مِنْ بَعْضِ الرُّوَاةِ وَالْعَجَبُ مِنَ الْبُخَارِيِّ كَيْفَ لَمْ يُنَبِّهْ عَلَيْهِ وَلَا أَصْحَابُ التَّعَالِيقِ وَلَا عَلِمَ بِفَسَادِ ذَلِكَ الْخَطَّابِيُّ فَإِنَّهُ فَسَّرَهُ وَقَالَ لُحُوقُ سَوْدَةَ بِهِ مِنْ أَعْلَامِ النُّبُوَّةِ وَكُلُّ ذَلِكَ وَهَمٌ وَإِنَّمَا هِيَ زَيْنَبُ فَإِنَّهَا كَانَتْ أَطْوَلَهُنَّ يَدًا بِالْعَطَاءِ كَمَا رَوَاهُ مُسْلِمٌ مِنْ طَرِيقِ عَائِشَةَ بِنْتِ طَلْحَةَ عَنْ عَائِشَةَ بِلَفْظِ فَكَانَتْ أَطْوَلَنَا يدا زَيْنَبُ لِأَنَّهَا كَانَتْ تَعْمَلُ وَتَتَصَدَّقُ وفي روایة وَكَانَتْ زَيْنَبُ امْرَأَةَ صِنَاعَةٍ بِالْيَدِ وَكَانَتْ تَدْبُغُ وَتَخْرُزُ وَتَصَدَّقُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ۔
یعنی ہم سے واقدی نے کہا کہ اس حدیث میں راوی سے بھول ہوگئی ہے۔
درحقیقت سب سے پہلے انتقال کرنے والی زینب ہی ہیں جن کا انتقال حضرت عمر ؓ کی خلافت میں ہوا اور حضرت سودہ ؓ کا انتقال خلافت معاویہ ؓ 54 میں ہوا ہے۔
ابن بطال نے کہا کہ اس حدیث میں حضرت زینب کا ذکر ساقط ہوگیا ہے کیونکہ اہل سیر کا اتفاق ہے کہ امہات المؤمنین میں سب سے پہلے انتقال کرنے والی خاتون حضرت زینب بنت حجش ہی ہیں اور جن روایتوں میں حضرت سودہ ؓ کا نام آیا ہے ان میں راوی سے بھول ہوگئی۔
ابن جوزی نے کہا کہ اس میں بعض راویوں نے غلطی سے حضرت سودہ کا نام لے دیا ہے اور تعجب ہے کہ حضرت امام بخاری کو اس پر اطلاع نہ ہوسکی اور نہ ان اصحاب تعالیق کو جنہوں نے یہاں حضرت سودہ ؓ کا نام لیا ہے اور وہ حضرت زینب ؓ ہی ہیں جیسا کہ مسلم شریف میں حضرت عائشہ کا بیان ہے کہ ہم میں سب سے زیادہ دراز ہاتھ والی (یعنی صدقہ خیرات کرنے والی)
حضرت زینب تھیں۔
وہ سوت کاتا کرتی تھیں اور دیگر محنت مشقت دباغت وغیرہ کرکے پیسہ حاصل کرتیں اور فی سبیل اللہ صدقہ خیرات کیا کرتی تھیں۔
بعض لوگوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ناپ کے لحاظ سے حضرت سودہ کے ہاتھ دراز تھے‘ ازواج النبی ﷺ نے شروع میں یہی سمجھا کہ دراز ہاتھ والی بیوی کا انتقال پہلے ہونا چاہیے۔
مگر جب حضرت زینب کا انتقال ہوا تو ظاہر ہوگیا کہ آنحضرت ﷺ کی مراد ہاتھوں کا دراز ہونا نہ تھی بلکہ صدقہ وخیرات کرنے والے ہاتھ مراد تھے اور یہ سبقت حضرت زینب کو حاصل تھی‘ پہلے انہی کا انتقال ہوا‘ مگر بعض راویوں نے اپنی لاعلمی کی وجہ سے یہاں حضرت سودہ کا نام لے دیا۔
بعض علما نے یہ تطبیق بھی دی ہے کہ آنحضرت ﷺ نے جس وقت یہ ارشاد فرمایا تھا اس مجمع میں حضرت زینب ؓ نہ تھیں‘ آپ نے اس وقت کی حاضر ہونے والی بیویوں کے بارے میں فرمایا اور ان میں سے پہلے حضرت سودہ ؓ کا انتقال ہوا مگر اس تطبیق پر بھی کلام کیا گیا ہے۔
حجتہ الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی فرماتے ہیں:
والحدیث یوهم ظاهرہ أن أول من ماتت من أمهات المؤمنین بعد وفاته صلی اللہ علیه وسلم سودۃة ولیس کذالك فتأمل ولا تعجل في هذا المقام فإنه من مزالق الأقدام۔
(شرح تراجم أبواب بخاري)
   صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1420   
  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1420  
1420. حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ کی کچھ بیویوں نے آپ سے عرض کیا:وفات کے بعد ہم میں سے کون سب سے پہلے آپ کو ملے گی؟آپ نےفرمایا:جس کا ہاتھ تم سب میں لمبا ہے۔ چنانچہ انھوں نے چھڑی لے کر اپنے ہاتھ ناپنے شروع کردیے توحضرت سودہ ؓ کا ہاتھ سب سے بڑا نکلا (مگر سب سے پہلے حضرت زینب بنت جحش ؓ کی وفات ہوئی۔) تب ہم لوگوں نے سمجھ لیا کہ ہاتھ کی لمبائی سے مراد خیرات کرنا تھا، چنانچہ وہ (حضرت زینب ؓ) ہم سے پہلے رسول اللہ ﷺ سے جاملیں۔ انھیں صدقہ دینے کا بہت شوق تھا۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1420]
حدیث حاشیہ:
(1)
امام حاکم نے کہا ہے کہ یہ روایت مسلم کی شرط پر ہے۔
امام بخاری ؒ نے شہرت کی وجہ سے مذکورہ حدیث میں اس کے نام کے متعلق وضاحت نہیں کی، چنانچہ علامہ کرمانی لکھتے ہیں کہ امام بخاری ؒ نے یہ واقعہ انتہائی اختصار سے بیان کیا ہے اور اس میں تمام ضمائر حضرت زینب بنت حجش ؓ کی طرف راجح ہیں۔
(فتح الباري: 363/3)
اس کی تائید حضرت عمرہ کی روایت سے ہوتی ہے جسے امام حاکم نے مستدرک میں بیان کیا ہے، حضرت عائشہ ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی بیویوں سے فرمایا:
تم میں سے لمبے ہاتھ والی مجھے سب سے پہلے ملے گی۔
ام المومنین حضرت عائشہ ٍؓ نے کہا کہ ہم آپ کے بعد آپ کی ایک بیوی کے گھر میں اپنے ہاتھ ناپا کرتی تھیں حتی کہ حضرت زینب بن حجش ؓ کا انتقال ہو گیا، حالانکہ وہ ہم سے لمبے ہاتھوں والی نہیں تھیں۔
اس وقت ہمیں معلوم ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کی مراد یہ تھی کہ جو صدقہ زیادہ کرتی ہے وہ سب سے پہلے مجھے ملے گی۔
محترمہ اپنے ہاتھ سے مزدوری کرتیں، وہ چمڑوں کو رنگ دیتی اور انہیں سیاہ کرتی تھیں، پھر اس کی کمائی سے اللہ کی راہ میں صدقہ کرتی تھیں۔
(المستدرك للحاکم: 25/4) (2)
اس حدیث کا ماقبل سے یہ تعلق ہے کہ صدقات کی کثرت اور ایثار اسی صورت میں ممکن ہے کہ صحت و سلامتی کے وقت اخلاص کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کا اہتمام کیا جائے۔
واللہ أعلم۔
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1420